امت مسلمہ کی ذمہ داری

تحریر:خواجہ محمد سلیمان۔۔۔برمنگھم

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو نبیؐ کے یوم ولادت کی خوشیاں منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس ماہ مبارک کی12 تاریخ کو رحمت دو عالمؐ کی پیدائش مبارک ہوئی، آ پ ؐکی دنیا میں آمد پوری انسانیت کے لئے باعث رحمت ہے ، آپؐ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپؐ پر جو کتاب نازل ہوئی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کے لئے ہدایت کی آخری کتاب ہے، آپؐ سے پہلے جتنے بھی نبی یا رسول آئے وہ کسی خاص قوم یا علاقے کے لئے آئے لیکن آپؐ کی رسالت قیامت تک تمام انسانوں کے لئے ہے جو کتاب آپؐ پر نازل ہوئی وہ بھی قیامت تک انسانوں کو ہدایت مہیا کرتی رہے گی، نبیؐ سے پہلے حضرت عیسیٰؑ دنیا میں تشریف لائے، آپؐ کی پیدائش ایک معجزاتی پیدائش تھی، آپؐ نے اپنی زندگی میں تورات کے وہ احکامات جو اپنی اصلی صورت میں موجود تھے ان پر عمل کیا اور جن احکامات میں بنی اسرائیل کے علماء￿ نے اپنی طرف سے تبدیلی اوراضافہ کیا تھاان کی نشاندہی کی اور دوبارہ ان احکامات کو اصلی حالت میں لوٹایا اور انجیل کی صورت میں نئے حالات کے مطابق تعلیم دی لیکن بعد میں ان کے ماننے والوں نے ایک ایسا تثلیث کا من گھڑت عقیدہ ما ننا شروع کیا جو عیسی علیہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے، اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید عیسائیوں کے اس باطل عقیدے کی نفی کرتا ہے اور ان کو خالص توحید پرستی کی دعوت دیتا ہے، اسی طرح یہودیوں کے اس دعوے کی بھی قرآن مجید نفی کرتا ہے کہ یہ خدا کی پسندیدہ قوم ہے، یہ دنیا میں جو چاہیں کریں ان سے کوئی حساب کتاب نہ ہو گا یا یہ کہ جس پر مرضی ظلم وستم کریں اللہ تعالی نے اس کی ان کو اجازت دی ہے۔قرآن مجید نے ان کی اس سوچ کو خود ساختہ کہا اورکہا کہ قیامت کے روز ہر آدمی کو حساب وکتاب دینا پڑے گا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی قوم یا قبیلہ سے ہو،قرآن مجید نے مشرکوں اور کافروں کو بھی توحید کی دعوت دی، نبیؐ نے اپنی حیات مبارکہ میں اسلام کے پیغام کو مشرکوں، عیسائیوں اور یہودیوں تک پہنچایا اور یہی کام آپؐ کے صحابہؓ نے بھی کیا اور اب یہ اس امت کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کے پیغام کو دنیا کے سارے انسانوں تک پہنچائے، آج مسلمانوں پر جو زوال کی ایک کیفیت چھائی ہوئی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت خود اسلامی تعلیم پر عمل کرکے دنیا کے سامنے ایک اچھا نمونہ پیش نہیں کر رہی، مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہے جس کی پیشگوئی نبیؐ نے بھی اپنی حدیث مبارکہ میں کی ہے کہ مسلمان مختلف فرقوں میں تقسیم ہوں گے اور کفر کی طاقتیں ان کو دنیا سے ختم کرنے کے لئے اکھٹی ہوں گی، آج دیکھ لیں کہ کس طرح اسرائیل اور بھارت مسلمانوں کو دبانے کے لئے اپنے اندر اتحاد کئے ہوئے ہیں،اسرائیل نے 1947 سے جو ظلم و ستم فلسطینیوں پر برپا کررکھا ہے عرب ملک اور اس کے حکمران بے بسی کی تصویر بنے ہیں بلکہ جو طاقتیں اسرائیل کی پشت پنائی کر رہی ہیں ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور اپنے ہی عوام پر ظلم و جبر کررہے ہیں، مسلمانوں کی اجتماعی حالت دیکھ کر ہر مسلمان جو دین کا شعور رکھتا ہے غم زدہ ہے لیکن ہمیں پْر امید رہنا چاہئے ،آج بھی اگر ہم اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں تو ہمارے حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں کیوں نہ ہم اس ربیع الاول میں یہ تہیہ کریں کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماہی زندگی اسلام کی تعلیمات کے مطابق گزاریں گے اور قرآن مجید کے پیغام کو دنیا میں عام کرنے کے لئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔یہاں برطانیہ میں ہماری نوجوان نسل دین کے پیغام سے دور ہو رہی ہے، ضروری ہے کہ ان کو اسلام کا حقیقی پیغام دیا جائے ،ان کے اندر آخرت کی جواب دہی کا تصور اجاگر کیا جائے، یہاں اس ملک میں ان کو ایسی تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بلکل انگریزوں کی طرح آزاد سمجھتے ہیں ،ان کو حرام و حلال کی کوئی تمیز نہیں، مسجدیں دینی تعلیم دینے میں فعال نظر نہیں آتیں اگر یہی صورتحال رہی تو پھر باقی عمربے راہ روی میں گزرے گی۔

 

Related Articles