انصاف ملنے میں تاخیر ناانصافی ہے
پروفیسرعتیق احمدفاروقی
دہلی کے اُپہار سنیماگرآتش زنی میں ثبوتوں سے چھیڑچھاڑ کے معاملے میںچوبیس سال بعد سزاسنائے جانے کے فیصلے نے ایک بار پھر یہ ثابت کیاکہ انصاف میں تاخیرکی بیماری لاعلاج بنی ہوئی ہے۔یہ پہلاایسامعاملہ نہیں ہے جس میں انصاف ملنے میں ضرورت سے زیادہ تاخیر ہوئی ہو۔ اس طرح کے معاملے سامنے آتے ہی رہتے ہیں۔ان معاملوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں استثنابھی نہیںکہاجاسکتا۔دراصل جو استثناہوناچاہئے اسی نے اب ضابطہ کی شکل اختیارکرلی ہے۔ زیادہ ترمعاملوں میں 20-15سال کی تاخیرہوناعام بات ہے۔ تاخیر ان معاملوں میں بھی ہوتی ہے جنہیں سنگین ماناجاتاہے۔دہشت گردی کے واقعات ،اجتماعی قتل ،بڑے پیمانے پرتشدد ،لوٹ مار ،عصمت دری ،قتل اورفساد جیسے سنگین جرم میں بھی انصاف ملنے میں کافی تاخیرہوتی ہے۔
بدنام زمانہ بہہ مئی واردات،جس میں پھولن دیوی اوران کے ساتھیوں نے بیس سے زیادہ لوگوں کو گولیوں سے بھون دیاتھا،چالیس سال بعد بھی انصاف کیلئے ترس رہاہے۔اس معاملے کے زیادہ ترملزمین ،گواہ اوریہاں تک کہ متوفی بھی انصاف کاانتظار کرتے کرتے گزرچکے ہیں۔ایسے معاملوں کی گنتی کرنا بھی مشکل ہے جو انصاف میںتاخیر کوبیان کرتے ہیں۔ جومعاملہ جتنا سنگین ہوتاہے،اس میں اتنی ہی زیادہ دیرہوتی ہے۔اس کاتازہ ثبوت اُپہار سنیماگھر آتش زنی ہے ۔یہ معاملہ اس بات کی بھی مثال ہے کہ رسوخ والوںکیلئے انصاف کی کارروائی پراثر انداز ہونا کتناآسان ہوتاہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ دہلی کاہی بی-ایم-ڈبلیو واقعہ تھا جس میںتین پولیس اہلکاروںسمیت چھ لوگ مارے گئے تھے ۔ اس معاملے میں بھی ثبوتوںکے ساتھ چھیڑچھاڑ کی گئی تھی۔اس چھیڑچھاڑ میں دوبڑے وکیل بھی شامل پائے گئے تھے جن میں سے ایک راجیہ سبھا کے رکن بنے۔
انصاف میں تاخیرکن اسباب سے ہوتی ہے اوریہ تاخیر کس طرح ناانصافی کا مظہر بنتی ہے،اس سے وہ سبھی اچھی طرح واقف ہیں جنہیںاس کاحل تلاش کرناہے۔ایسے لوگ وقتاً فوقتاً اُن اسباب کا ذکربھی کرتے ہیں اورفکرکابھی اظہار کرتے ہیں لیکن وہ ضروری اقدام کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ کبھی عدلیہ سے متعلق افسران انصاف میں تاخیر کیلئے انتظامیہ کے لوگوں کو کٹگھرے میں کھڑا کرتے ہیں تو کبھی اس کے برعکس بھی چیزیں ہوتی ہیں۔ کبھی کوئی وسائل کے فقدان کا رونا روتے ہوئے دکھتاہے توکبھی کوئی سڑے گلے قانونوں ،ڈھیلاسی-آر-پی-سی کاذکرکرکے اپنے فرض کونبھاتادکھتاہے۔ اس طرح کبھی کوئی تاریخ پر تاریخ کے سلسلے کو الزام دیتاہے توکبھی پولیس کی کارکردگی کو۔لب لباب یہ ہے کہ سبھی بااختیار لوگ یہ قبو کرنے کیلئے تو ہمیشہ تیار دکھتے ہیں کہ مسئلہ کا وجود ہے لیکن اس کا حل تلاش کرنے کیلئے کمر کستے ہوئے نہیں دکھتے۔
اگرکبھی نظام کے کسی جز سے کوئی پہل ہوتی بھی ہے تو دوسرا جز حائل ہوجاتاہے۔ جب عدالت عظمیٰ نے پولیس اصلاح کیلئے ۷نکاتی رہنماہدایات جاری کیں تو ریاستی حکومتیں انہیں بے اثر کرنے میں جٹ گئیں۔ مرکزی حکومت نے بھی ریاستی حکومتوں کے مطابق کارروائی کی اوراس طرح عدالت عظمیٰ کی رہنماہدایات کاغذی بنے رہے۔ جب قانون ساز اسمبلی نے اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے طریقۂ کار میں اصلاح کرنے کی کوشش کی تو خود عدالت عظمیٰ اسے خارج کرنے کیلئے آگے آگیا۔اس نے پارلیمان کے ذریعہ پاس اور ریاستی اسمبلیوں کے ذریعہ توثیق شدہ آئین ترمیمی قانون کو خارج کردیاتاکہ جج ہی ججوںکی تقرری کرتے رہیں۔ ایسا عالم میں کسی جمہوری ملک میں نہیںہوتا لیکن ہندوستان میں دھڑلے سے ہورہاہے۔
مرکزی حکومت ایک لمبے عرصہ سے آل انڈیاجوڈیشیل سروس کی تشکیل کرنے کی حمایت میں ہے لیکن کئی ہائی کورٹ اورریاستی حکومتوں کو یہ خیال راس نہیں آرہاہے۔ ایساتب ہے جب 1960سے ہی اس کیلئے کوشش کی جارہی ہے ۔یہ دیر کے ساتھ اندھیر کی ایک شرمناک مثال ہے۔ ایسی مثالوں کی کمی نہیں ۔جیسے آل انڈیاجوڈیشیل سروس کی تشکیل میں دلچسپی نہیںدکھائی جارہی ہے،ویسے ہی موضع عدالتوںکی تشکیل میں بھی کئی ریاستوںنے تھوڑی بھی دلچسپی کامظاہرہ نہیں کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کو دروزے پر ہی انصاف دلانے کا مقصد پوراہونے کانام نہیں لے رہاہے۔
بھلے ہی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس یہ کہیں کہ جب چیزیںغلط ہوتی ہیں تو لوگوں کویہ بھروسہ ہوتاہے کہ عدلیہ سے انہیں راحت ملے گی۔ یہ صحیح نہیں ہے۔مصیبت میں مبتلالوگ جب عدالت کے پاس جاتے ہیں تو اکثرانہیں تاریخ پر تاریخ کے سلسلے میں جوجھناپڑتاہے۔ پچھلے قریب ایک سال سے زرعی قوانین مخالف مظاہرین دہلی کے سرحدی علاقوں میں ہائی وے کو گھیر کر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن عدالت عظمیٰ تاریخ پرتاریخ دینے کے علاوہ اورکچھ نہیں کررہی ہے ۔ اس کی ناک کے نیچے ہی انصاف دیر اوراندھیرکاشکار ہے۔انصاف ملنے میں تاخیر سے صرف اقتصادی ترقی ہی متاثرنہیں ہوتی بلکہ سماجی ترقی پر بھی برااثرپڑتاہے۔ علاوہ ازیں لوگوںکاجمہوریت اورا سکے عناصر سے اعتمادختم ہوتاہے۔ اتناہی نہیں قانون کی حکمرانی کو بھی گہری چوٹ لگتی ہے اوراس کے نتیجے میں سماج دشمن عناصر ، مجرموں اورملک مخالف طاقتوں کوقوت ملتی ہے۔ یہ کسی سے چھپا نہیں ہے کہ سڑکوں پراترکر انتشار پھیلانے ، راستے روکنے اورپولیس وتھانوں پرحملہ کرنے کے معاملے بڑھتے جارہے ہیں۔اخیر میں اس حقیقت کو واضح کرنا ضروری ہے کہ کبھی کبھی ہماری عدالتیں حکومت کادباؤ قبول کرتے ہوئے غلط فیصلے بھی کردیتی ہیںجس کے دور رس نتائج ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتے اورمستقبل میں تاریخ بھی ہمیںمعاف نہیں کرے گی۔