جب ایک بہن کو تعلیم چھوڑ کر اپنے سوتیلے بھائی اور بہن کو گود لینا پڑا
لندن،نومبر۔جب جیما بیئر کی فیملی بحران سے دو چار ہوئی تو انھوں نے ایک دم سے ایک ایسا فیصلہ کیا جس سے ان کی زندگی کا رخ بدل گیا۔ ایک ایسی عمر میں جب لوگ اپنے مستقبل کی فکر کرتے ہیں، جیما نے صرف ایک چیز کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور وہ تھی اپنی سوتیلی بہن اور بھائی کی پرورش۔جیما کا بچپن معمول سے ہٹ کر تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے میرا زیادہ تر وقت کھلے آسمان تلے سلیپنگ بیگ (گدا نما بیگ) میں تاروں کو تکتے گزرتا تھا۔‘یہ فیملی اپنا سامان ایک نیلی اور سفید لینڈ روور میں لادے زیادہ تر یورپ گھومنے کے علاوہ بالی، ملائشیا اور تھائی لینڈ میں بھی رہ چکی تھی۔جیما کہتی ہیں کہ ’میری ماں کا خیال تھا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر اور اس دوران سکول میں تعلیم حاصل کرنے اور نئے لوگوں سے ملنے کا تجربہ میرے لیے بہت مفید ہو گا۔‘دس برس کی عمر میں جیما نے کئی زبانیں سیکھ لی تھیں مگر ایک سال بعد یہ خاندان ترکی میں بحیرۂ روم کے ساحل پر ایک ٹوٹی پھوٹی بادبانی کشتی میں رہنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ جب ان کی ماں اور ان کے پارٹنر کا تعلق ختم ہو گیا تو جیما اور ان کا چار سال کا بھائی کیلوِن اپنی ماں کے ہمراہ برطانیہ کے علاقے ویلز آگئے۔جیما کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں میری ماں ایک چھوٹے سے خوبصورت سے گھر کی آرزو مند تھیں جس میں بہت سے بچے اور کتے ہوں اور دروازے پر گلاب کی بیل ہو۔‘جیما جب جی سی ایس ای (دسویں جماعت) میں تھیں تو ان کی ماں، جین کو ایک نیا پارٹنر مل گیا۔ لوگ انھیں شیکی کہتے تھے۔ شیکی سے ایک لڑکا ایلکس اور لڑکی بیِلی پیدا ہوئی جو جیما سے عمر میں 15 اور 14 برس چھوٹے تھے۔جیما کہتی ہیں کہ ’شیکی ایک پرکشش اور دلچسپ شخصیت کے مالک تھے اور میرے خیال میں دونوں کے درمیان سچی محبت تھی مگر وہ بہت زیادہ شراب پیتے تھے۔‘ان کی دیکھا دیکھی جین نے بھی شراب شروع کر دی۔ یہاں سے ان کی زندگی میں بگاڑ آنے لگا اور ان کا گھر بکھرنے لگا۔جیما اے لیول میں تھیں جب جین اور شیکی نے سپین جا بسنے کا فیصلہ کیا۔ شیکی کی شراب نوشی کی وجہ سے خاندان کو کچھ مالی مشکلات درپیش تھیں اور سپین میں کام ملتا تھا۔جیما کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ نئی شروعات تھی اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ابتدائی چند مہینے بہت اچھے رہے۔‘جیما نے ویلز میں اپنی آیا کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا جبکہ ان کا چھوٹا بھائی کیلوِن اپنے والد کے پاس چلا گیا۔چند ماہ بعد ہی یہ اندوہناک خبر ملی کہ جین کا ایکسیڈنٹ کی وجہ سے انتقال ہو گیا ہے۔ اس وقت وہ چالیس سال کی تھیں۔جیما کا کہنا تھا کہ ’میرا سب کچھ لْٹ چکا تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں بغیر قطب نما اور لنگر کے سمندر کے بیچ ڈول رہی ہوں۔‘ماں کے انتقال کے بعد ایلکس اور بیِلی سپین میں اپنے والد شیکی کے ساتھ رہنے لگے اور جیما نے ویلز میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔وہ سپین جا کر ان کے ساتھ رہنا چاہتی تھی مگر امتحان میں اچھے نمبر آنے کے بعد انھوں نے تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے یونیورسٹی جانے کا فیصلہ کیا اور اس کا ایک سبب یہ تھا کہ اگر میری ماں زندہ ہوتیں تو وہ بھی یہ ہی چاہتیں۔‘چھٹیوں کے دوران جیما سب سے سستا ٹکٹ خرید کر سپین جاتیں اور یونیورسٹی کے ساتھیوں کو یہ تاثر دیتیں کہ وہ بہت غیر معمولی زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ایسا بالکل نہیں تھا۔‘شیکی کو شراب کی لت پڑ چکی تھی مگر وہ اس کا علاج کروانے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔جیما کہتی ہیں کہ ’جب میں وہاں جاتی تو میں انھیں اس کا احساس دلانے کی کوشش کرتی مگر وہ ماننے کو تیار نہ ہوتے کہ ایسا کوئی مسئلہ ہے بھی۔‘’میرے خیال میں وہ واقعی سمجھتے تھے کہ ان مشکل حالات میں وہ جو کچھ کر سکتے تھے کر رہے ہیں مگر وہ بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کے مقابلے میں زیادہ وقت شراب خانے میں گزارتے تھے۔‘جن دنوں جیما یونیورسٹی میں تھیں تو شیکی نے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے مریسا نامی ایک آیا رکھ لی تھی مگر چند دنوں بعد مریسا کو ارجنٹینا واپس جانا پڑا کیونکہ ان کی اپنی ماں بیمار پڑ گئیں۔چند ہفتے بعد جیما کو ٹیلی فون آیا کہ ایلکس اور بیِلی کو سماجی بہبود کے ادارے نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’یہ سن کر میرا دل ٹوٹ گیا مگر تعجب بالکل نہیں ہوا۔‘جمیا فوری طور پر سپین گئیں جہاں انھیں بتایا گیا کہ اگر شیکی تین ماہ تک خود کو مدہوش ہونے سے بچا سکیں، باقاعدہ ملازمت کر سکیں اور اپنے لیے گھر کا بندوبست کر سکیں تو تب ہی ان کے بچے انھیں واپس ملنے کا امکان ہے۔بچوں کے چلے جانے کے بعد وہ کرایہ بھی ادا نہیں کر پائے تھے اس لیے ان سے گھر خالی کروا لیا گیا تھا۔ جیما نے نوکری اور رہنے کا ٹھکانا ڈھونڈنے میں ان کی مدد کی مگر شراب پینے سے نہ روک سکیں۔وہ کہتی ہیں، ’میرے خیال میں وہ جانتے تھے کہ انھیں شراب کی لت پڑ چکی ہے مگر اس کا اقرار کرتے کبھی نہیں سنا۔ وہ شراب پینا نہیں چھوڑ سکتے تھے۔‘تین ماہ بعد حکام نے جیما کو بتایا کہ اگر خاندان کا کوئی رکن ان بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو وہ انھیں گود لیے جانے والے (لے پالک) بچوں کی فہرست میں شامل کر لیں گے۔اس بات کی کوئی ضمانت نہیں تھی کہ انھیں ایک ساتھ رکھا جائے گا یا یہ کہ کسی ایسے خاندان کو دے دیا جائے گا جو انگریزی بولتا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ شاید جیما کو پھر ان سے ملنے کی بھی اجازت نہ ہو۔’میں نے خود کو کہتے سنا، اچھا، تو پھر میں ان کی پرورش کروں گی، مجھے فارم بھیجو۔‘جیما نے فون رکھا اور سوچنے لگیں کہ یہ انھوں نے کیا کیا۔وہ کہتی ہیں کہ ’یہ نہیں کہ ایسا کرنا صحیح تھا بلکہ یہ کہ کیا میں ایسا کرنے کے قابل ہوں۔ میں اس بارے میں فکر مند تھی کہ انھیں اس زبان اور ثقافت سے دور کر دیا جائے گا جس سے وہ مانوس تھے۔ جو لوگ بچوں کو گود لیتے ہیں عام طور پر ان کے پاس بہت دولت ہوتی ہے، اچھے گھر ہوتے ہیں۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا۔‘خاندان کے دوسرے لوگ حیران تھے کہ جیما نے اتنی بڑی ذمہ داری کیسے اٹھالی۔وہ کہتی ہیں کہ ’خاندان والے شیکی پر ناراض تھے اور یہ کہ میں نے کسی دوسرے کی غلطی کے لیے اپنی زندگی کیوں قربان کر دی۔‘جیما صرف 23 سال کی تھیں اور ہر کسی کو یہ فکر تھی کہ انھوں نے کس بھاری کام کا ذمہ اپنے سر لے لیا ہے۔گود لینے کا عمل طویل اور پیچیدہ تھا۔ 18 ماہ کے اس عمل کے دوران جیما کو بارہا خبردار کیا گیا کہ بچوں کے ان کی تحویل میں دیے جانے کے امکانات کم ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھ سے مسلسل کہا جاتا رہا کہ انھیں میرے حوالے نہیں کیا جائے گا کیونکہ میرے پاس گھر نہیں، یہ نہیں وہ نہیں۔‘جیما کہتی ہیں کہ وہ سپین سے واپس ویلز چلی آئیں کیونکہ ان کے خیال میں اگر بچوں کی تحویل انھیں مل جاتی تو ان کی پرورش کے لیے یہ زیادہ بہتر جگہ ہوتی۔ سپین میں بچوں کو کیئر ہوم سے ایک نہایت سخت روایتی کیتھولک یتیم خانے منتقل کر دیا گیا تھا۔ ان کے بقول بچے اب بھی ننز (راہباؤں) کو دیکھ کر سہم جاتے ہیں۔اس دوران جیما نے انھیں نہیں بتایا کہ وہ کس کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ ’میں ان کی توقعات نہیں بڑھانا چاہتی تھی اور انھوں نے بھی پوچھنا چھوڑ دیا تھا کہ وہ گھر جا رہے ہیں یا نہیں۔‘پھر وکیل کا فون آ ہی گیا جس نے بتایا کہ وہ جب چاہیں سپین آکر ایلکس اور بیلی کو لے جا سکتی ہیں۔جیما کہتی ہیں کہ ’مجھے ایک ناقابلِ بیان احساس نے آ لیا، معلوم نہیں کہ یہ تسکین تھی، خوشی تھی یا خوف، شاید سب کچھ تھا۔‘چند ہی دن میں انھوں نے کریڈٹ کارڈ کی مدد سے ایک گھر کا بندوبست کیا، اسے ضروری سامان سے آراستہ کیا اور جہاز کے ٹکٹ خریدے۔ یہ کارڈ انھیں ماں نے دیا تھا اور تاکید کی تھی کہ اشد ضرورت کے وقت ہی اسے استعمال کرے۔ایلکس اور بیلی کو ابھی اس بات کی بھنک نہیں ملی تھی۔جیما کا کہنا تھا کہ ’وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ یہ بہت حیران کن تھا مگر میرے خیال میں انھیں اس کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ اتنی بار انھیں مایوسی کا منہ جو دیکھنا پڑا تھا۔‘چوبیس برس کی عمر ہی میں جیما پر آٹھ اور نو سال کے دو بچوں کی ذمہ داری آن پڑی۔ انھیں مالی تنگی کا سامنا تھا۔ جیما خود کام پر نہیں جا سکتی تھیں کیونکہ بچوں کی دیکھ بھال کے لیے وہ کسی کو ملازم نہیں رکھ سکتی تھیں اور چونکہ وہ ایلکس اور بیلی کی باضابطہ سرپرست بھی نہیں بن سکتی تھیں اس لیے ان کے تمام سرکاری وظائف بھی انھیں نہیں مل سکتے تھے۔ پہلے چھ مہینے تک تینوں کو صرف 90 پاؤنڈ ہفتے پر گزارا کرنا پڑا۔اس وقت کو یاد کر کے وہ کہتی ہیں کہ ’اس وقت ہم بہت خوش تھے مگر مفلس بھی تھے۔‘ایلکس اور بیلی یک جان دو قالب تھے۔جیما کہتی ہیں ’جب انھوں نے ایک دوسرے سے بحث کرنا شروع کی تو مجھے خوشی ہوئی کہ انھیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے باوجود ایک دوسرے پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے یہ مثبت علامت لگی کہ وہ اپنے آپ کو خود مختار سمجھتے ہیں۔وہ کافی ساری انگریزی بھول چکے تھے مگر یہاں جیما کا وہ کورس کام آیا جو انھوں نے یونیورسٹی میں غیر ملکیوں کو انگریزی سکھانے کے لیے کیا تھا۔ وہ گھر میں جگہ جگہ انگریزی اور سپینش میں الفاظ لکھ کر چسپاں کر دیتی تھیں تاکہ بچوں کو بھولی ہوئی زبان یاد کرنے میں مدد ملے۔جیما کو ان کی مکمل سرپرستی حاصل کرنے میں ایک سال لگ گیا۔ یہ ایلکس اور بیلی کے لیے ایک اہم موڑ تھا کیونکہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا کر رہنے کے اتنے عادی ہو چکے تھے کہ انھیں یقین ہی نہیں آیا کہ اب وہ ہمیشہ کے لیے جیما کے ساتھ رہ سکیں گے۔جیما کہتی ہیں کہ انھوں نے بہت دیر تک اپنے بارے میں سوچنا شروع نہیں کیا۔ ’بہت عرصے تک میں نے ڈیٹنگ کے بارے میں نہیں سوچا، کم سے کم اس وقت تک نہیں جب تک یہ بچے 16 برس کے نہیں ہو گئے۔‘جب انھوں نے فل ٹائم کام کرنا شروع کیا تو انھیں اس احساس جرم نے آیا لیا کہ شاید وہ اچھی ماں نہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس بات کا شدید احساس تھا کہ انھیں یہاں لانے کے لیے میں نے کتنی جد و جہد کی ہے۔ یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا کہ میں کہیں کام میں زیادہ مصروف نہ ہو جاؤں یا ان کی ضرورت کا خیال نہ رکھ پاؤں۔‘شیکی سپین سے واپس آ گئے تھے اور جب 2017 میں جیما ان سے ملنے گئیں تو وہ بے گھر افراد کے کسی شیلٹر میں رہ رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اپنی شوخی اور شرارت بھول چکے تھے۔ میرے خیال میں انھیں بہت پچھتاوا تھا مگر میں بچوں کو بتاتی ہوں کہ ان کے والد برے انسان نہیں تھے، بس سخت بیمار تھے۔‘شیکی نے 2018 میں اتنی شراب پی لی کہ وہ مر گئے۔اب جبکہ ایلکس اور بیلی اس عمر کو پہنچ چکے ہیں جس عمر میں جیما نے انھیں گود لیا تھا، وہ سمجھنے لگی ہیں کہ بعض لوگوں نے کیوں محسوس کیا تھا کہ وہ غلطی کر رہی ہیں۔وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اب اگر وہ (ایلکس اور بیلی) پلٹ کر مجھ سے کہیں کہ وہ دو بچوں کو گود لے رہے ہیں تو میرا سر چھت سے جا ٹکرائے گا۔‘مگر وہ ان کی تربیت پر نازاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ان پر جو بیتی اس کی وجہ سے وہ بالکل الگ سمت میں جا سکتے تھے لیکن وہ اتنے پیارے، سلجھے ہوئے انسان نکلے ہیں۔‘دونوں کو اپنی ماں کی طرح دنیا گھومنے کا شوق ہے۔ ایلکس اے لیول کے بعد ایک سال کے لیے نیوزی لینڈ گئے اور بعد میں سنو بورڈنگ انسٹرکٹر کے طور پر کینیڈا چلے گئے جبکہ بیلی نے ٹریول اور ٹورزم کی تعلیم حاصل کی۔وقت گزرنے کے ساتھ جیما کا احساس ممتا ایک بڑی بہن کے احساس میں بدلتا گیا۔ایک اور تبدیلی یہ آئی ہے کہ اجنبی انھیں دیکھ کر اب اتنے پریشان نہیں ہوتے۔جیما نے بتایا کہ ’جب وہ بچے تھے، یا یہ کہ میں کم عمر تھی تو اکثر لوگ ہماری عمریں پوچھتے تھے۔ اس کے بعد ان کے چہروں سے صاف لگتا تھا کہ وہ اپنے ذہن میں حساب لگا رہے ہیں، پھر وہ عجیب نظروں سے ہمیں دیکھنے لگتے۔ کبھی کبھار میں انھیں اصل بات بتا دیتی تھی مگر زیادہ تر انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیتی تھی کہ وہ جو چاہے سوچیں۔‘جیما اب 38 برس کی ہیں۔ سات برس تک وہ کسی کے ساتھ تعلق میں رہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ انھیں کبھی اپنے بچے کی خواہش نہیں ہوئی۔ البتہ اپنے بھائی اور بہن کی پرورش کرنے پر انھیں کبھی کسی طرح کا پچھتاوا نہیں ہوا۔’میرے فیصلوں میں سے یہ میرا بہترین فیصلہ تھا۔