کورونا وائرس کی تباہیاں اور نوازشیں

تحریر:سیّد اقبال حیدر۔۔۔فرینکفرٹ

ماہ دسمبر 2019 کو کورونا وائرس کا آغاز چین کی سرزمین سے ہوا اور اس موذی وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، ایسی عالمی وبائیں یوں تو ہر سوسال بعد ایک نئے روپ میں ظاہر ہوتی رہی ہیں مگرکورونا وبا کو میڈیا نے جو پزیرائی دی اس کے پیشِ نظر اس کی دہشت نے دنیا بھر کو ایک خوف اور اضطراب میں مبتلا کر دیا،دوسری طرف اس کے علاج پر بھی خصوصی طور پر نہایت تیزی سے کام ہوا اور دنیا کے بہت سے ممالک میں ’’کورونا ویکسین‘‘ بنائی گئیں اور جن ممالک میں حکومت اور عوام نے ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ویکسین لی ہیں، وہاں اس وبا سے ہلاکتوں میں خاطر خواہ کمی کے نتائج بھی نظر آئے،جن گھروں میں کورونا سے اموات ہوئیں وہ تو اس خوفناک بیماری کے اثرات سے بخوبی آگاہ ہیں مگر جن کے دائرہ احباب کے قریب سے کورونا کا گزر نہیں ہوا وہ آج بھی اس کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں اور ایسے افراد یورپ اور ایشیا میں موجود ہیں،میرے اپنے جان پہچان والوں میں پڑھے لکھے افراد بھی ابھی تک ’’کورونا ویکسین‘‘ لگوانے کے قائل نہیں ہوئے جس کا احساس مجھے اپنے حالیہ سفر میں ہوا، کورونا وائرس نے کہیں تو اپنی خوفناک تباہ کاریوں سے گھراور کاروبار ویران کر دیے ہیں اور کہیں اس وبا نے لوگوں پر نوازشوں کی بارش کر دی اور ان کے کاروبار چمک گئے، دولت کی بھرمار ہو گئی، فضائی سفر سے پہلے مسافروں کو ’’PCR ‘‘ ٹیسٹ کرانا ضروری ہے جس کے مختلف دورانیے ہیں، 48 گھنٹے کا ہو یا 72 گھنٹوں کا ہومجھے حالیہ سفر قطر ایئر ویز پر کرنے کا اتفاق ہوا جس کے لئے 72 گھنٹوں کا ٹیسٹ کراناتھا، فرینکفرٹ ہی میں نہیں دنیا بھرمیں PCR ٹیسٹ ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے، ہر لیبارٹری اپنی من پسند قیمت وصول کر رہی ہے اور دنیا بھرکے حکومتی ادارے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں،فرینکفرٹ میں ہی PCR ٹیسٹ کہیں89 یورو کہیں 79کہیں 69 اور کہیں 49 یورو میں کیا جا رہا ہے اور جرمنی میں کچھ ریاستیں ایسی بھی ہیں جہاں یہ سہولت مفت ہے۔ جرمنی آنے سے قبل میں نے کراچی ایئرپورٹ پر قطر ایئرویز کے آفس سے PCR ٹیسٹ کے بارے میں معلومات لیں کہ قطر ایئرویز کن’’ معتبر لیبارٹریوں‘‘ کے ٹیسٹ کو تسلیم کرتی ہے وہاں موجود سٹاف نے مجھے’’Lab Health One‘‘ کا موبائل نمبر ایک مخصوص اسٹاف کے نام کے ساتھ دے دیا،اسی نمبر پر میرے رابطے پر ان خاتون نے مجھ سے میرے اور میری فیملی کے پاسپورٹ کی اسکین کاپیاں واٹس اپ کرنے کو کہا جو میں نے کردی،مجھے حیرت اور پریشانی تب ہوئی جب ان خاتون نے مجھے میرے بچوں کے نام اور میری فلائٹ کی تفصیل بتائی جو میں نے انہیں ابھی نہیں دی تھی،بعد میں احساس ہوا کہ ایئر پورٹ پر قطر ایئرویز کے اسٹاف نے مجھے ان خاتون کا نمبر تو دیا اور ساتھ ہی ساتھ انھوں نے میری اور میرے بچوں کی سفری تفصیل بھی ’’Lab Health One ‘‘ کی خاتون اسٹاف کو میری اجازت کے بغیر دے دی تھی،جو کم ازکم جرمنی میں سیکورٹی اوردیگر حوالوں سے سخت جرم ہے مگر وطن عزیز میں یہ اچھے کام ہو رہے ہیں،اب ہمارا ریکارڈ اس Lab Health One کے پاس موجود تھا اس لئے اپنے PCR ٹیسٹ ان ہی سے کرانے پڑے،ہمارے گھر ایک اسٹاف آیا اور ہمارے ٹیسٹ کے نمونے لے لئے ،24 ہزار روپے وصول کئے مگر ان صاحب کے پاس اس رقم کی وصولی کے رسید دینے کو نہیں تھی جو بعد میں مجھے واٹس پر بھیج دی گئی، خدا خدا کر کے رات آٹھ بجے منفی رپورٹ واٹس اپ پر مل گئی جس کا شدت سے ہر مسافر انتظار کرتا ہے،میں ’’رپورٹ کے پرنٹ ‘‘کے حصول کے لئے اپنی عباس ٹائون،گلشن اقبال میں رہائش کی قریبی Lab Health One برانچ میں گیا جہاں کائونٹر پر موجود LAB کے یونیفارم میں ملبوس نوجوان نے مجھے یہ کہہ کر حیران و پریشان کر دیا کہ میرا PCR ٹیسٹ 72 کا نہیں بلکہ 48 گھنٹوں کا کیا گیا ہے جو میرے لئے خطرے کی گھنٹی تھی،کیونکہ میرا دوحہ میں چار گھنٹوں کا دوسری فلائٹ تک کا درمیانی وقت تھا،بار بار فون کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ میرا ٹیسٹ72 کا ہی ہے، ڈیوٹی پر موجود اسٹاف نے کم علمی سے مجھے غلط اطلاعات فراہم کی تھیں،میں اس فضائی کمپنی سے سخت نالاں تھا کہ انھوں نے مجھے ایسی غیرذمہ دار LAB سے کیوں منسلک کر دیا،ایئر لائن کے اسٹاف کو چاہیے کہ وہ کسی ایک من پسند نہیں بلکہ شہر کی مختلف ذمہ دارLAB کا بتائیں جو اس ایئرلائن کو قابل قبول ہیں،مسافر خود ان میں سے کسی کا انتخاب کرے، مگرواپسی پر قطر ایئرویز کے چیک اسٹاف نے اپنے دوستانہ اور معذرت خواہانہ رویہ سے ہماری شکایتیں تو دور کر دیں مگر ایک بات طے ہے کہ’’ کورونا‘‘ نے کسی کو اْجاڑ دیا تو کسی کو سنوار دیا۔

 

Related Articles