علمی دنیا سوگوار :ندوۃ العلماء کے ماہر استاذ کا سانحہ ارتحال 

شمیم احمد ندوی
 15اکتوبر بروز جمعہ2021کودارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ کی مسجد کے ممبر سے بعدنمازجمعہ مولانا حفظ الرحمن صاحب قاسمی ندوی کیلئے دعائے صحت کے اعلان سے تھوڑی تشویش اور دل کی دھڑکن تیز ہو گئی،گھر پہنچ کر موبائل آن کیا تو ہر گروپ سے (انا للہ وانا الیہ رجعون) کی صدا کے ساتھ لکھ کر آرہا تھا کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مایہ نازاستاذ و مربی مولانا حفظ الرحمن صاحب ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے (انا للہ وانا الیہ رجعون)مولانا بہت دنون سے بیمار چل رہے تھے لکھنؤ میں علاج سے کوئی افاقہ نہیں ہورہاتھاتو اپنے صاحبزادے برادر عزیز عطاء الرحمٰن کے پاس علاج کی غرض سے دہلی چلے گئے۔ دارالشفاء ابوالفضل میں زیرعلاج تھے۔ مرض مہلک تھامگر ڈاکٹروں نے شفایابی کی امید ظاہر کی تھی لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔صحت یابی کے بعد دوبارہ لکھنؤ آنے کی ہم سب کو بڑی امیدیں تھیں اورانہیںدوبارہ دیکھنے کی اور خوشگوار ماحول میں ان کی مدلل ومستدل باتیں سننے کی جو چاہت دل میں مخفی تھی وہ مولانا پر طاری ہو نے والی موت کو بروقت قبول کرنے کو تیارنہیں تھی مگر موت تووہ لازوال حقیقت ہے جس سے کسی کومفر نہیں،خواہی نہ خواہی تسلیم کر نا ہی پڑتا ہے،موت سے کس کو رُستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے، مگر اس کا اپنوں پر،محسنین ومربیوں پر، مشفقین و مہربانوں پر واقع ہونا دل شکستگی کا باعث ہوتا ہے۔
مولانا حفظ الرحمن صاحب رحمہ اللّٰہ علیہ کی ولادت باسعادت 1955ء میں ضلع سہرسہ بہار کے مردم خیز اور آدم گر قصبہ’’مبارک پور‘‘’’سمری بختیارپور‘‘میں ہوئی آپ کے والد ماجدکا نام شیخ عبد الرحمٰن تھا جو قصبہ کے رؤسا میں سے تھے آپ کی پرورش اور بنیادی تعلیم مبارک پور میں ہی ہوئی ۔آپ   نے اپنے ایک عزیزمولانا حصیر الدین صاحب قاسمی سے بچپن کی بنیاد ی تعلیم سے مشکوٰۃ المصابیح تک حاصل کی،اس کے بعد بہار کے معروف ومشہور ادارہ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر میں داخلہ لیا وہاں بھی آپ کواپنے قرابت دار اور جامعہ رحمانی کے باکمال استاذ مولانا فضل الرحمن صاحب رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی سر پرستی حاصل رہی ،وہیں میں نے مولانا کا دیدار کیا تھا دیدار اسلئے لکھ رہا ہوں کہ میں وہاں کے درجہ حفظ کا طالب علم تھااور دارالاطفال کامکین تھااوریہ دیدار بھی صرف دوپہر اورشام کی کھانیں کی لائن میں ہوا کرتاتھا یہ واضح کردوں کہ جامعہ رحمانی میں اس وقت کھانہ لائن سے تقسیم ہوتاتھا اورمولانا اپنی قامت کی وجہ سے پوری لائن میں ممتاز ہوتے تھے اوروہ موسٹ سینئراورجامعہ کے شہ نشین تھے،وہاں کی اصطلاح میں مرکزی تعلیمی اوررہائشی عمارت کو جامعہ کہتے ہیں جس میں صرف بڑے طلباء اوراساتذہ رہتے ہیں جیسے ندوہ میں دارالعلوم کی عمارت ۔درجات وعمرمیں تفاوت کے باوجودچھوٹے بڑے سبھی مولانا سے اسلئے واقف تھے کہ کاتب تقدیر نے مولانا کو بچپن سے ہی بڑا بنایا تھا پورے جامعہ رحمانی میں،شایدپورے مونگیر میں قدوقامت میں ان سے کوئی بڑا نہیں تھا پہلے قدوقامت میں بڑے تھے اور بعدمیں قدرو قیمت میں بھی بڑے ہو گئے۔
مولانا جامعہ رحمانی میں تقریباً دوسال پڑھنے کے بعد تکمیل حدیث کیلئے1975ء یا1976ء میں دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے اس زمانے میں دار العلوم ندوۃ العلماء کے استاذ ِحدیث مولانا اسلم صاحب مظاہری بھی وہیں زیر تعلیم تھے۔ان کی شہادت ہے کہ مولانا حفظ الرحمن صاحب دارالعلوم دیوبند کے ان ممتاز فرزندوں میں سے تھے جو بارہ دری میں طلباء کے ایک بڑے حلقے کو تکرار اورمذاکرہ کراتے تھے جن میں مولانا مظہر کریمی،مولانانثارالحق قاسمی ہم زلف مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی بھی ہوتے تھے ،وہاں سے تکمیل کے بعد مولانا نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے تخصص فی الادب میں داخلہ لیا اور یہاں برادرم خورشید انورندوی ،عرفان حسنی ندوی اورسید فخرالدین حسینی ندوی ساکن کڑپہ آندھرا پردیش جیسے علم کے لعل و گہر آپ کے رفیق درس رہے اور مخدوم گرامی ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ندوی مد ظلہ العالی اور استاذ مکرم مولانا سید محمد واضح رشید ندوی رحمۃاللّٰہ علیہ اورخطیب العصر ، مہتمم دارالعلوم ڈاکٹر،مولانا سعید الرحمن صاحب اعظمی ندوی جیسے علم کے شناور اور گوہر شناس اساتذہ ملے،جن کی سرپرستی میں آپ کے علم و مطالعہ میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوئی،اس طرح مولانا جامعہ رحمانی،دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے فیض یافتہ تھے اس لئے بطور خاص یہ تینوں ادارے اور بالعموم پوری علمی دنیا ان کے سانحہ ارتحال پر سوگوار ہے۔مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے نسبی رشتہ داروں میں قریب ترین تین ندوی شخصیات تھیں اللہ ان سب کو غریق رحمت کرے۔ تینوں بڑے وضعدار،خوش خصال ،وخوش پوشاک تھے، ڈاکٹرمنظورعالم صاحب ندوی ؒ مبارک پور سہرسہ،مولانا علاء الدین صاحب ندوی ،مولانا انعام الحق صاحب ندوی پپرا لطیف مونگیر،مولانامرحوم ان تینوں سے بڑے متأثر تھے انہیں کو اپنا آئیڈیل مانتے تھے ا س لیے ان کی گفتگوسے محسوس ہوتاتھا کہ وہ ندوۃ العلماء آنے کیلئے بچپن ہی سے بیتاب تھے لیکن قاسمی گھرانے میں پیدا ہوئے اس لئے اپنے بزرگوں کی اطاعت میں دارالعلوم دیوبند ہوکرندوہ آنا نصیب تھا۔ یوں بھی سوائے پان کے قاسمیت کی کوئی علامت ان میں نہیں تھی ۔
اِس درمیان میں نے جامعہ رحمانی مونگیر میں تکمیل حفظ کے بعد اُردو،عربی ،فارسی اورصرف نحو کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1980ء کے اختتام میں جب دارالعلوم ندوۃ العلماء آیا تو مولانا مرحوم کو یہاں پاکریوں لگاجیسے بن مانگے مرادیں مل گئیں ہوںاورسچ مچ میں ایک بے لوث مشیر ورہنما ہمیں مل گئے جو تادم حیات میری رہنمائی فرماتے رہے ،خوشی اورغم بانٹتے اورخاص کر میں جب معہد سیدنا ابوبکر صدیق سے ندوۃ العلماء منتقل ہوا تو مولانا سے قربت اور بڑھ گئی صبح وشام کی چائے نوشی کینٹین میں ساتھ ہونے لگی ،تبادلۂ خیالات ہوتے ،تعلیم وتعلم کی باریکیاں بتاتے ،لیکن مرحوم کے بغرض علاج دہلی منتقل ہونے کے بعد کینٹین چھوٹی چائے بھی چھوٹ گئی وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا۔
تعلیم وتعلم کیلئے مولانا کا نقطہ نظر الگ تھا وہ جمود نصاب تعلیم کے قائل نہیں تھے جو میتھڈ(Method) ان کے پاس تھا وہ زمین پر اتارناچاہتے تھے لیکن وسائل کی کمی ،اُن کی خودداری اوربے نفسی کی وجہ سے یہ آرزوپوری نہ ہوسکی ۔اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ۔مولانا کے پاس جو میتھڈاورویزن(Vison)( Method) تھا اپنے بچوں پر اُس کا کامیاب تجربہ کیا اب ان کے بچے ،ماشاء اللہ انگلش سے اردو ، ہندی اورعربی میں آسانی سے ترجمہ کرسکتے ہیں ،اللہ ان کے تمام بچوں کامستقبل تابندہ اورروشن کرے۔
مولانا بڑے ذہین اورفطین تھے پڑھنے کے رسیااوردلدادہ تھے،ان کو کھانے کی بھوک کم تھی اورپڑھنے کی زیادہ۔ ندوۃ العلماء میں اُن کے پڑھنے کا اور مطالعہ میں انہماک کا جو عالم تھا اس پر برادر مکرم خورشید انور صاحب نے بڑی اچھی مثال دی ہے کہ ندوۃ کی کینٹین میں چائے نوشی کے دوران ان کے مشترک ہم سبق سید فخر الدین سجاد حسینی ساکن کڑپہ آندھر اپردیش نیچے سے کوئی مرقوم کا غذ کا ٹکڑا اٹھا کر ان کے سامنے رکھ دیتے اوروہ غرق مطالعہ ہو جاتے اور ان کی چائے کا کچھ حصہ خرد برد ہو جاتا اور موصوف کو چنداں خبر نہ ہو تی ۔مولانا حفظ الرحمن صاحب ؒ کو مختلف فنون و زباندانی کی پیاس ایسی تھی کہ عربی،انگریزی، فارسی،اردو،سنسکرت اور فرنچ سے بھی تشنہ لبی نہیں گئی تو آج کل سریانی کی زلفیں آراستہ کر رہے تھے اور یہ بھی فرما رہے تھے کہ یہ بہت ہی آسان زبان ہے جلد قابو میں آجائے گی اور سب سے خوبی کی بات یہ ہے کہ یہ دنیا کمانے کیلئے نہیں سیکھتے تھے، دین کما نے کیلئے اور دوسروں کو کما نے کے لائق بنانے کیلئے،اس دور میں تو ایسی شخصیت ناپید ہے۔مولانا بڑے خلیق ،ملنسار،بے غرض اوربے لوث انسان تھے ،جاہ ومنصب کی چاہت تو ان کوچھو کر نہیں گزری تھی ۔ظہر بعد،مغرب وعشاء بعد چھٹی کے اوقات میں بھی ان کو چھوٹی نہیں تھی ،صحافت ،ریاضی، انگریزی ،ہندی ،سنسکرت اورفرنچ کے متوالے مسجد میں اُن کے گرد حالہ بناکر بیٹھے اوراپنی علمی پیاس بجھاتے نظرآتے تھے اورکوئی ٹیوشن فیس نہیں۔نہ ستائش کی تمنارہتی تھی اورنہ صلہ کی پرواہ ۔
پھونک کر اپنے آشیانہ کو
روشنی بخش دی زمانے کو
مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدراور ندوۃ العلماء کے ناظم حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی اپنے ایک تعزیتی مکتوب میں لکھتے ہیں کہ مرحوم کی زندگی بڑی زاہدانہ تھی ان کی استعداد تو ایسی تھی کہ وہ بڑی سے بڑی ملازمت کر سکتے تھے لیکن انہوںنے دنیا نہیں دیکھی دین دیکھااور دین کیلئے اپنے آپ کو کو وقف کر دیا۔
گرامی قدربرادر محترم خورشید انور ندوی حفظہ اللہ مقیم حال حیدرآباد رقم طراز ہیں کہ مولانا حفظ الرحمن صاحب دنیا خوب جانتے تھے اُسے برتنا نہیں جانتے تھے،قناعتوں میں گذارکر قناعت ہی سیکھتے رہے،ایک نا آسودہ زندگی پوری آسودگی سے گزار دی، پوری زندگی کا بوجھ ڈھوکر چلے گئے، لیکن جیتے جی کسی پر بوجھ نہیں ڈالا،مولانامرحوم کی زاہدانہ زندگی کے یہ وہ اوصاف حمیدہ تھے جنہوں نے کئی بار اشک بار کر دیا۔
مولانا حفظ الرحمن صاحب ؒ ایک موبائل مدرسہ کے مثل تھے کوئی تکلف نہیں جس نے جہاں چاہا،جب چاہاحاضرباش،کسی بھی زبان وادب کا مسئلہ ہو یا صرف ونحو کی گتھیاں ہوں یا انگریزی کی باریکیاں، سنسکرت کے دوہے اور پنگتیاں کھڑے کھڑے سلجھا دیتے،مولانا کے جانے سے کتنی ہی شاخوںکے اساتذہ یتیم ہوگئے جومولانا سے اپنے مسائل حل کرکے اپنے مسنددرس گرمایاکرتے تھے۔اللہ تعالیٰ مولانا کو اِس کا اجرعظیم عطا کرے اوران اساتذہ کو مولانا کا نعم البدل عطاکرے۔
مولانا کا مطالعہ بڑا وسیع تھا ،معلومات کے انسائکلو پیڈیاتھے لیکن اُن کی معلومات کے خزانے ،ان کے لاابالی پن اوربے توجہی کے نقاب سے باہر نہ آسکے۔ مگر: تمہاری نیکیاںزندہ -تمہاری خوبیاں باقی۔
میں نے کئی بار مولاناسے درخواست کی کہ اپنی عمیق معلومات کو قلم بند کرائیے،تاکہ آپ کی بھی کوئی کتاب منظر عام پر آئے۔کہنے لگے ’اس کی کیا ضرورت ہے ہمارے شاگرد لکھ رہے ہیں اس سے ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے اور ان سب کی تصنیفات میں میرا بھی حصہ ہے‘اللہ تعالیٰ تمام شاگردوں کو،ان کے مصنفات واعمال صالحات کو مولانا مرحوم کیلئے بھی زخیرہ آخرت بناے آمین ثم آمین۔مولانا کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ،پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ،اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اورمولانا کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے، آمین۔

Related Articles

Check Also

Close