باغبانی: پودوں کے ساتھ باتیں کرنے والے لوگ جنھیں یقین ہے کہ یہ عمل ایک حقیقت ہے
لندن،ستمبر۔جہاں کئی باغبانی کرنے والوں کا خیال ہے کہ پودوں سے بات چیت کرنے سے ان کی نشو و نما بہتر ہوتی ہے، وہیں سائنسی دنیا میں اسی موضوع پر ایک بحث و تکرار ہو رہی ہے کہ کیا پودے ہماری باتیں سنتے ہیں یا وہ ہماری باتوں کا جواب بھی دیتے ہیں۔لارا بیلوف کے گھر کا پودا ایک کلک کی آواز دیتا ہوا سنائی دیتا ہے۔ انھوں نے اس پودے کی جڑوں کے ساتھ ایک مائیکروفون لگا دیا ہے تاکہ وہ مٹی کے اندر بہت ہی خفیف سے کلک کی آواز کو سن سکیں۔یہ ممکن ہے ایک ایسے سوفٹ ویئر کے ذریعے جو انھوں نے اپنی ریسرچ کے لیے خود تیار کیا۔ اس نے کلک کی فریکوینسی کو اتنا کم کر دیا ہے کہ اْس آواز کو انسان سن لیتے ہیں۔جب وہ اپنے ڈیسک پر کام کر رہی ہوتی ہیں تو اس وقت پودے سے جڑی یہ مشین ایک خوشگوار انداز میں بات چیت کر رہی ہوتی ہے۔ لیکن بات چیت کی آواز اس وقت محسوس ہوتی ہے جب کوئی بات کرتا ہے۔بیلوف جو فن لینڈ کی آلٹو یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، کہتی ہیں کہ یہ ایک انتہائی عجیب و غریب بات ہے۔ اس مرتبہ جب ان سے کوئی ملاقات کے لیے آیا تو پودے سے کلک کی آواز آنا بند ہو گئی۔ جب وہ مہمان چلا گیا تو کلک کی آواز دوبارہ آنے لگی۔بعد میں اور بھی بہت سارے لوگ آئے، اس مرتبہ بھی آواز رک گئی۔ اور جب وہ بھی چلے گئے تو آواز دوبارہ سے آنے لگی۔ بیلوف کہتی ہیں کہ مجھے ابھی تک معلوم نہیں کہ میں اس بارے میں کیا سوچوں۔ کچھ ایسا لگتا ہے کہ یہ پودا بیلوف سے صرف تنہائی میں کلک کرتا ہے یعنی جیسے کہ وہ اِس سے بات چیت کر رہی ہوں۔بیلوف کے پودوں سے نکلنے والے کلکس کا پتا لگانے کی کوششیں دو سال سے زائد عرصے تک جاری رہیں۔ انھیں ان آوازوں کے بارے میں ابھی بھی یقین نہیں کہ پودا کیا کہہ رہا تھا۔اِس مشین کے بنانے میں استعمال ہونے والا اس کا سامان کم قیمت کا تھا۔ ایک سادہ مائیکروفون جس کے متعلق وہ تسلیم کرتی ہے کہ وہ مٹی یا اردگرد کے ماحول میں موجود مائیکروآرگنِزم کی آوازوں کو بھی محسوس کرسکتا تھا، ضروری نہیں کہ یہ کلک کی آواز پودے کی ہو۔اور یہ اندازہ لگانا کہ پودا بات چیت کر رہا تھا یا اس نے کمرے میں داخل ہونے والے لوگوں پر ردعمل ظاہر کیا، اس وقت محض ایک قیاس آرائی ہے۔لیکن امکان، تھوڑا سا موقع، بیلوف کے اس تجربے کو دلچسپ بنا دیتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے؟ یہی سوال ہے۔ پودوں اور پودوں کی زندگیوں کے بارے میں بہت ساری ایسی باتیں ہیں جو ہم نہیں جانتے ہیں۔ فی الحال سائنس کے اْن ماہرین کے درمیان ایک بحث ہے جو پودوں کا مطالعہ کرتے ہیں کہ پھول اور جھاڑیاں کس حد تک ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں یا دوسری جاندار چیزوں سے بات چیت کر سکتے ہیں۔اور اگر وہ کر سکتے ہیں تو کیا یہ نباتات ذہین بھی کہے جا سکتے ہیں یا ان کی یہ صلاحیت انھیں ذہین بھی بناتی ہے؟اس وقت سائنسی تحقیق پودوں کی پیچیدگیوں اور ان کی حیرت انگیز صلاحیتوں کے بارے میں مسلسل نئی سے نئی دریافتیں کر رہی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ پودے اس سے کچھ زیادہ پیچیدہ ہو سکتے ہیں جتنا کچھ ہم نے ان کے بارے میں فرض کیا ہوا ہے۔ لیکن یہ خیال کہ وہ انسانوں سے بات کرتے ہیں ابھی کافی متنازع ہے۔اگرچہ یہ تنازع کچھ لوگوں کو پودوں کو اپنی گفتگو میں شامل کرنے کی کوشش کرنے سے نہیں روکتا ہے۔ یہ پودوں کے ساتھ سرگوشی کرنے والے کہلاتے ہیں۔بیلوف کو پہلے مونیکا گیگلیانو اور دیگر محققین کے تجربات کے بارے میں پڑھنے کے بعد اپنے پودوں کی جڑوں کی آواز سننے کا خیال آیا۔ پچھلی ایک دہائی کے دوران یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں گیگلیانو نے اپنے تحقیقی پیپرز کی ایک سیریز شائع کی ہے جس میں بتایا گیا کہ پودوں میں بات چیت کرنے، سیکھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت ہے۔انھوں نے طویل بحث کی ہے کہ سائنسدانوں کو اس حقیقت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ پودے صوتی طور پر معلومات کو منتقل اور بازیافت کر سکتے ہیں۔ سنہ 2017 کی ایک تحقیق میں گیگلیانو اور اْن کے ساتھیوں نے کہا کہ پودے اپنی جڑوں کے ذریعے پانی کے ہلنے کی آواز کو محسوس کرنے کے قابل دکھائی دیتے ہیں جو انھیں زیر زمین پانی کی تلاش کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔گیگلیانو کو یقین ہے کہ پودے بات چیت کر سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بات چیت کے ثبوت واضح ہیں۔ ایسے پودے جنھیں جب کیٹرپلر کی جگالیوں کے شور کی آوازیں سنائی گئیں تو ان میں حقیقی اور بھوکے کیٹرپلرز کے حملے کے لیے آنے کی نسبت ایسا کیمیائی مادہ زیادہ مقدار میں پیدا ہوا جس سے وہ اپنے حملہ آور سے محفوظ رہ سکیں۔سنہ 2012 میں شائع ہونے والے ایک معروف پیپر میں کہا گیا تھا کہ گیگلیانو نے اور ان کے شریک مصنفین نے پودوں کی جڑوں سے شور کے کلک ہونے کا پتا چلایا۔ محققین نے ان آوازوں کا جڑ سے پیدا ہونے والے سگنلز کا پتا لگانے کے لیے لیزر وائبرومیٹر کا استعمال کیا۔گیگلیانو کا کہنا ہے کہ لیزر کو پودوں کی جڑوں پر تربیت دی گئی تھی جب وہ لیبارٹری کے حالات میں پانی میں ڈوبے ہوئی تھیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہ محسوس کی جانے والی آوازیں دراصل جڑوں سے نکل رہی ہیں۔یہ کہنے کے لیے کہ ان کلکس کا کوئی بھی مواصلاتی کام ہے۔ اس کے لیے ابھی مزید شواہد کی ضرورت ہے۔گیگلیانو کا کہنا ہے کہ انھوں نے پودوں کی جڑوں کا مشاہدہ کیا ہے کہ وہ اسی طرح کی فریکوینسیز پر آوازوں کا جواب اپنی نشو و نما کی سمت کو تبدیل کرتے ہوئے دیتے ہیں۔اس کا کیا مطلب ہے اس کے بارے میں غیر یقینی صورتحال باقی ہے۔ اور گیگلیانو نے اپنے دعوؤں کے ساتھ ایک حیرانی کا بھی اظہار کیا کہ غیر تجرباتی ماحول میں انھوں نے پودوں کو الفاظ استعمال کرتے ہوئے سنا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ یہ تجربہ سختی سے سائنسی دائرے سے باہر ہے اور یہ کہ کسی اور کے دیکھتے ہوئے ان آوازوں کی پیمائش نہیں کی جا سکے گی جو انھوں نے لیبارٹری کے آلات سے سنی ہیں۔ لیکن وہ کافی یقین رکھتی ہیں کہ انھوں نے پودوں کو کئی مواقع پر بات کرتے ہوئے محسوس کیا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ میں ایسے حالات میں رہی ہوں جہاں صرف میں ہی نہیں بلکہ اسی جگہ کے کئی دوسرے لوگوں نے بھی یہی بات سنی ہے۔ آپ ان دعوؤں کے بارے میں جو بھی سوچتے ہوں وہ اپنی جگہ، تاہم متعدد سائنسی ٹیموں کی حالیہ تحقیق پودوں اور آواز کے بارے میں دلچسپ معلومات کا انکشاف کرتی رہی ہے۔مثال کے طور پر اسرائیل میں سائنسدانوں کے ایک گروپ کی طرف سے سنہ 2019 میں کی گئی تحقیق کا مطالعہ کریں جس سے پتا چلا کہ پودے جب شہد کی مکھی کی آواز سنتے ہیں تو وہ اپنے نیکٹر (امرت) میں شوگر کی مقدار میں اضافہ کرلیتے ہیں۔پودے کیڑوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اور انھیں انعام دینے کے لیے ایسا کر سکتے ہیں، جیسے کہ وہ شہد کی مکھیوں کے لیے کرتے ہیں، جو نیکٹر حاصل کرتے وقت ان کو زرخِیز بناتی ہیں یا جرگ کرتی ہیں۔ کچھ دوسرے کیڑے کسی بھی جرگ کو جمع یا پھیلائے بغیر پودوں کا نیکٹر حاصل کرتے ہیں، جس سے پودے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔یہ تب ہی معلوم ہوا جب محققین نے اپنے مطالعے میں پودوں کو شہد کی مکھیوں کی آوازوں یا اسی فریکیونسی پر شور سنایا، اور پھر انھوں نے نوٹ کیا کہ ان پودوں میں شوگر کی مقدار بڑھ گئی تھی۔دیگر تحقیقات ایسے طریقوں کا ایک دوسرا پس منظر پیش کرتی ہیں جن میں آواز پودوں کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر پودے جنھیں جب کیٹرپلر کے شور کی آوازیں سنائی گئی تو ان میں حقیقی اور بھوکے کیٹرپلرز کے حملے کے لیے آنے کی نسبت ایسا کیمیائی مادہ زیادہ مقدار میں پیدا ہوا جس سے وہ اپنے حملہ آور سے محفوظ رہ سکیں۔اس طرح کی تحقیقات نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ کیا وہ خاص طور پر تیار کردہ آواز کا استعمال کرتے ہوئے پودوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ایک چینی تنظیم، چنگ ڈاؤ فزیکل ایگریکلچرل انجینئرنگ ریسرچ سینٹر، نے پودوں کی آواز نشر کرنے کے لیے ایک خاص آلہ تیار کیا ہے۔ اس آلے کے بنانے والوں کا دعویٰ ہے کہ اس کے استعمال سے پودوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور کھاد کی ضرورت کم ہوتی ہے۔آواز پودوں اور دیگر جانداروں کے درمیان باہمی فائدہ مند تعلقات کو بھی فعال کر سکتی ہے۔ بورنیو میں گوشت خور پودے نیپینتھس ہیمسلیانا سے تعلق رکھنے والے گھڑوں کی عقبی اندرونی دیوار چمگادڑوں کے الٹراساؤنڈ کے ردعمل کے لیے تیار ہوتی ہے۔یہ چمگادڑوں کو پودوں کے گھڑوں کی طرف راغب کرتے ہے، جس میں وہ ٹھہرتے ہیں، اور یہ چمگادڑ بعد میں اپنے جسم سے ٹپکنے والے قطروں سے پودے کی زرخیزی میں بہتری پیدا کرتے ہیں۔پودوں اور چمگادڑوں کے مابین صوتی تعلقات کی تحقیقات کرنے والے سنہ 2016 کے ایک تحقیقی پیپر میں بتایا گیا ہے کہ پودوں سے قریبی تعلق رکھنے والی نسلوں میں، جو کہ کھاد کے لیے چمگادڑوں پر انحصار نہیں کرتیں، ان میں میل جول کی ایک ہی طرح کی سطح نہیں ہوتی جو اْڑنے والے ستنداریوں (میملز) کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔یہ تمام کام اس دعوے کو مضبوط بنانے میں مدد کرتے ہیں کہ آواز پودوں کے لیے اہم ہوتی ہے۔ لیکن اس میکانیزم کے ذریعے پودے آواز کا ادراک کر سکتے ہیں یا اسے محسوس کر سکتے ہیں، یہ بات فی الحال ایک معمہ ہے۔ اور اگرچہ یہ کہنا ایک بات ہے کہ ان کے پاس جینیاتی طور پر پروگرام شدہ یا خودکار صوتی محرکات کے جواب دینے کی صلاحیت ہے۔لیکن یہ ایک اور بات ہے کہ آیا پودے وہ آواز سن سکتے ہیں اور اس پر غور کر سکتے ہیں کہ اس کے بعد کس طرح رد عمل ظاہر کیا جائے۔ زیادہ تر لوگ بحث کریں گے کہ ذہانت کی قسم بڑی حد تک جانوروں کی پرجاتیوں کو محفوظ رکھتی ہے۔پودوں کی بات چیت یا مواصلاتی صلاحیت پر شک کرنے والوں میں جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے ڈیوڈ رابنسن بھی شامل ہیں۔ وہ اور دوسرے لوگ ان دعوؤں پر سخت تنقید کرتے ہیں کہ پودے ذہین ہیں یا وہ ہماری طرح بات چیت کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ صوتی محرکات پر پودوں کے ردعمل پہلے سے طے شدہ اور محدود ہیں، تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان کا کسی سوچنے کے عمل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پودوں میں نیوران نہیں ہوتے ہیں، یعنی وہ خلیات جو جانوروں کے دماغ میں برقی سگنل کے ذریعے معلومات منتقل کرتے ہیں۔ رابنسن کہتے ہیں کہ عام طور پر پودوں میں سوچنے کے لیے مشینری کی کمی ہوتی ہے۔ تاہم کہا جا سکتا ہے کہ کیمیکل اجزا سگنلنگ کے ذریعے پودوں کے اندر گھومتے ہیں۔یہ خیال کہ پودے سیکھ سکتے ہیں اس پر کافی تنازعہ ہے۔ ایک محقق نے گیگلیانو اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے پودوں میں سیکھنے کے بارے میں ایک تحقیق کے نتائج کو دہرانے کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ ایک ہی جیسا نتیجہ دوسری مرتبہ حاصل کرنے سے قاصر رہے۔ ایک شائع شدہ جواب میں گیگلیانو اور اس کی ٹیم نے کہا کہ دوبارہ تجربے کا طریقہ کار ان کے اپنے نتائج سے بہت مختلف تھا اس لیے وہ اپنے پہلے تجربے کے نتائج کا قابل اعتماد اندازہ نہیں لگا سکے۔اگرچہ پودے مختلف اقسام کے صوتی محرکات پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور بعض اوقات کیمیائی مادوں کے ذریعے زندگی کی مختلف شکلوں کے ساتھ ابلاغ کرتے ہیں، پھر بھی کئی ماہرین کہیں گے کہ اسے ان کے درمیان کسی قسم کی بات چیت کرنا نہیں کہا جا سکتا ہےرابنسن کا کہنا ہے کہ وہ اس امکان کو مسترد نہیں کرتے ہیں کہ پودے اب بھی ہمیں حیران کر سکتے ہیں – لیکن وہ اصرار کرتے ہیں کہ ہمیں ان کی مواصلاتی صلاحیتوں کا اپنے سے موازنہ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یا یہ کہ ہم ان سے بات کرنے کی کوشش کریں۔وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں بہت سے لوگ ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو پودوں کو انسان نما سمجھ کر انھیں اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں۔ وہ محققین کے درمیان اختلاف کو بھی کم نہیں کرتا ہے جن میں ایک دھڑا بحث کرتا ہے کہ پودے علم حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور دوسرا دھڑا کہتا ہے کہ پودوں میں ایسی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں دو کیمپ ہیں جو کہ ایک دوسرے کے خلاف حالتِ جنگ میں ہیں، میرا مطلب زبانی جنگ میں ہونا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان دھڑوں کے درمیان بھی تقسیم ہے۔ پودوں کی صلاحیتوں کے بارے میں محققین کے خیالات مختلف طریقوں سے مختلف ہیں اور رابنسن کے علاوہ بہت سے سائنسدانوں کو شبہ ہے کہ پودے ذہین ہیں۔شاید کسی نے سوچا ہو کہ یہ ایک انسان کی طرح مواصلات کی ایک صورت ہو۔لیکن ایڈنبرا یونیورسٹی میں پروفیسر امیریٹس، ٹونی ٹریواواز ایک مختلف نظریہ رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے انداز سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ پودوں کو ذہین سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ وہ واضح طور پر ان طریقوں سے صوتی محرکات کا جواب دیتے ہیں جو ان کی بقا کی مشکلات کو بہتر بناتے ہیں۔وہ اسے ایک زیبرا سے تشبیہ دیتا ہے جو شیر سے خوف محسوس کرتے ہوئے بھاگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس کے بارے میں ایک ذہین ردعمل کے طور پر سوچنے میں تھوڑی دشواری ہوتی ہے جبکہ وہ پودا جو اپنے ایک پتّے کا ایک حصہ تلف کرتا ہے تاکہ کیٹرپلر کو وہاں انڈے دینے سے روک سکے۔ٹریواواز اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ درخت مٹی میں جرثوموں کے نیٹ ورکس پر انحصار کرتے ہیں تاکہ وہ غذائی اجزا تلاش کریں۔ یہ ان انواع کے مابین رابطے کی ایک شکل ہے۔ٹونی ٹریواواز کا کہنا ہے کہ ہر زندگی ذہین ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر یہ اس معاملے میں بھی نہ ہوتا۔ یہ یقینی طور پر سوچنے والی بات ہے۔ اس تصور کی تعریف کے مطابق کیا بقا ذہانت کا ثبوت ہے؟کسی بھی طرح اس معاملے پر غور کریں، سوال یہ ہے کہ کوئی پودوں سے کیسے بات کر سکتا ہے یا سبزیوں کی باتوں کو کس طرح ڈی کوڈ کر سکتا ہے۔اگرچہ پودے واضح طور پر بعض اقسام کے صوتی محرکات کا جواب دے سکتے ہیں اور کم از کم بعض اوقات زندگی کی مختلف اقسام کے ساتھ کیمیائی سگنلز کے ذریعے بات چیت کر سکتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ بحث کریں گے کہ یہ بات چیت کرنے جیسا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ واقعاتی، سماجی آوازوں کے مترادف جو کہ بہت سے غیر انسانی جانوروں کی انواع میں پائے جاتے ہیں۔لورا بیلوف کا کہنا ہے کہ جب کہ وہ اس امکان سے حیران رہتی ہے، وہ اس خیال پر شک بھی کرتی رہتی ہے کہ پودے بات کر سکتے ہیں۔وہ کہتی ہے کہ یقیناً یہاں ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ پودوں کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔ میں اسے زیادہ عقلی یا سائنسی نقطہ نظر سے دیکھتی ہوں۔ یہ کرنا کتنا مشکل ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ اگر ہم ایک صنوبر کے پودے کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں تو ہم اصل میں کیا کہیں گے؟ یا کسی دہلیہ کے ساتھ بحث کریں گے تو کیا بات کریں گے؟بیلوف نے حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ شاید پودے ہم سے بھی بات چیت کرنا چاہیں گے۔ کسے معلوم، کون جانتا ہے؟‘