بی جے پی کو ووٹوں کا بٹوارہ کرنے سے باز رکھنے کی خاطر متحدہ طور پر الیکشن لڑنا ناگزیر: عمر عبداللہ

سری نگر،اپریل ۔جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبدا للہ نے بدھ کے روز کہا کہ میرا پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن کو مشورہ ہے کہ وہ آنے والے اسمبلی انتخابات مل کر لڑیں تاکہ بی جے پی اور اس کی بی ٹیم کو ووٹوں کا بٹوارہ کرنے سے باز رکھا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 کے متعلق قانونی اور آئینی طورپر ہمارا موقف بالکل صحیح اورمضبوط ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آج اخبار والوں کو اس بات پر گرفتار کیا جارہا ہے کہ آپ حکومت کی تعریف کیوں نہیں کرتے؟ان باتوں کا اظہار موصوف نے پارٹی عہدیداران کے ایک غیر معمولی اجلاس سے خطاب کے دوران کیا ۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ گرمائی تعطیلات کے بعد دفعہ370اور 35اے پر سماعت شروع کریںگے،ہم نہ صرف یہ اُمید کررہے ہیں کہ کیس کی جلد از جلد سماعت شروع ہوگی بلکہ فیصلہ بھی فوری طور پر سنایا جائے گا کیونکہ ہمیں پورا یقین ہے کہ قانونی اور آئینی طورپر ہمارا موقف بالکل صحیح اور مضبوط ہے۔انہوں نے کہاکہ جو ہمارے ساتھ ہو وہ نہیں ہونا چاہئے تھا، جو ہمارے ساتھ ہوا وہ غیر قانونی ہے اور غیر آئینی ہے اور اس کا فیصلہ سپریم کورٹ کو کرناہوگا ۔ان کے مطابق سپریم کورٹ نے سماعت کی حامی بھر لی ہے، چلئے شکر ہے گاڑی یہاں تک تو پہنچ گئیعمر عبداللہ اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ”نوجوان اکثر پوچھتے ہیں کہ نیشنل کانفرنس نے کیا ،کیا ہے؟ اور یہی نوجوان آج کے حالات سے پریشان ہے، یہ نوجوان اس لئے پریشان ہے کیونکہ نیشنل کانفرنس نے جو حاصل کیا تھا وہ اس سے چھینا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ اگر ہم نے جموں وکشمیر کے لئے کچھ حاصل نہیں کیا ہوتا تو 5اگست 2019 کو ہماری زندگیوں میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا ہوتا،لیکن بدلاؤ آیا ۔ اگر نقصان ہوا، تو وہ نقصان اس کا ہوا جو نیشنل کانفرنس نے جموں وکشمیر کیلئے حاصل کیا تھا اور جو ہم سے چھیناگیا ہم اس کو واپس لانے کیلئے لڑ رہے ہیں۔ “عمر عبداللہ نے کہا کہ ”آج بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے،ان لوگوں (مرکز)نے کس چیز میں جموں وکشمیر میں انصاف کیا؟ یہ لوگ گذشتہ3سال سے اعلانات اور دعوے کررہے ہیں کہ یہاں کے نوجوانوں کی ترقی ہی ترقی ہوگی، ہمیں خدارا دکھائے کہ نوجوانوں کی کون سے ترقی ہوئی؟آج ہمارا نوجوان بے روزگاری، بے چینی ، غیر یقینیت اور لاچاری کے بھنور میں مبتلا ہوکر رہ گیا ہے۔عمر کے مطابق کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں، آج انسان پھونک پھونک الفاظ استعمال کرتا ہے کہ کہیں کوئی کارروائی نہ ہوئے جائے حد تو یہ ہے کہ ایک ریسرچ سکالر کو 11سال پہلے کی بات پر قید کیا گیا ہے۔ 2011 میں ایک ریسرچ سکالر نے پیپر لکھا تھا اور آج پولیس نے اس کیخلاف کارروائی کی ہے۔ اگر2011میں اس پیپر سے لوگوں پر اثر نہیں پڑا تو خدارا بتائے کہ آج کیا اثر پڑے گا؟ یہ کیسے کہا جاسکتاہے کہ مذکورہ شخص ماحول بگاڑ رہا ہے؟انہوں نے کہاکہ آج اخبار والوں کو اس بات پر گرفتار کیا جاریا ہے کہ آپ حکومت کی تعریف کیوں نہیں کرتے؟ارے!آپ کچھ کیجئے تو وہ تعریف لکھیں گے،آپ کچھ کرتے نہیں تو تعریف کیا لکھیں گے؟“۔بگڑتی ہوئی معیشی حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عمر عبداللہ کہا کہ ”حکمرانوں نے ہر ایک اقتصادی شعبے کو زمین بوس کرکے رکھ دیا ہے۔چلئے خدا کا شکرہے کہ سیاح آرہے ہیں،وہ ان کے (حکومت کے )کہنے پر نہیں آرہے ہیں،وہ کورونا کی وجہ سے دو سال گھروں میں بند رہے ، تیسرے سال وہ گھروں سے نکل گئے اور کشمیر آنا سیاحوں کی پہلی پسند ہوتا ہے، لیکن یہاں کے موجودہ حکمران سیاح گِن رہے ہیں، ارے جناب! یہ سیاح آپ سے پہلے بھی آتے تھے اور آپ کے جانے کے بعد بھی آئیں گے۔!“عمر عبداللہ نے کہا کہ حکومت کی ساری توجہ پروپیگنڈا پر مرکوز ہے اور ہر طرف جھوٹا پروپیگنڈا جاری ہے۔ انہوں نے پارٹی کی یوتھ ونگ سے وابستہ نوجوانوںپر زور دیا کہ وہ لوگوں کو حقیقت سے سمجھائیں، نوجوانوںکو اپنی پارٹی کی تاریخ سے باخبر کریں اور اس بات کی جانکاری دیں کہ ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

 

Related Articles