ہندوستان اس وقت نازک مرحلے پر، یکساں نظریہ رکھنے والوں کا مل کر لڑنا ناگزیر:عمر عبدا ﷲ
سری نگر، مارچ۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیرا علیٰ عمر عبدا ﷲ کا کہنا ہے کہ مصیبت کی گھڑی میں ہی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اصلی دوست اور ہمدر کون ہوتا ہے؟انہوں نے بتایا کہ جموں وکشمیر کے لوگ جن مصائب سے گذرے اُس کا ہم نے کبھی اندازہ بھی نہیں لگایا تھا،جو کچھ ہمارے ساتھ 5 اگست 2019 کو کیا گیا، کسی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ کبھی ایسا بھی ہوگا۔ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے چنئی میں تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے سٹالن کی سوانح حیات کی رسم اجرائی کی تقریب کے دوران کیا۔عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا ملک اس وقت ایک نازک مرحلے پر ہے۔جس تصور پر ملک کھڑا تھا اُس کو حملوں کا سامنا ہے۔ آج ہمیں بتایا جارہاہے کہ ہمیں اپنی پسند کی آزادی نہیں ہے،ہم کسی مذہب کی پیروی کریں یا نہ کریں اور اگر کریں تو کتنی کریں، یہ بھی ہم پر مسلط کیا جارہاہے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ ”ایک ہندو کو اس بات کی آزادی ہونی چاہئے کہ وہ زعفرانی لباس پہنے یا نہیں، وہ اپنے ماتھے پر تلک لگائے یا نہیں؟ایسے ہی ایک سکھ کو اس بات کی آزادی ہونی چاہئے کہ وہ پگڑی پہنے یا نہیں؟ اورایک مسلمان کو اس بات کی آزادی ہونی چاہئے کہ وہ ٹوپی پہنے ،دھاڑے رکھے، برقعہ پہنے، سکارف پہنے یا پھر حجاب، کیونکہ یہ سب ایک فرد اور اُس کے خدا کے درمیان ہے۔لیکن جس ملک کو ہندوستان کہتے ہیں، میں آج کچھ وجوہات کی بنا پر ہم سے یہ آزادی چھینی جارہی ہے۔اور یہ کہا جارہا ہے کہ یہ آزادی ہندوستان کی سالمیت کیلئے خطرہ ہے۔“انہوں نے کہا کہ ”میں کیا پہنو، کیا کھاؤں، میں کسی مذہب کی پیروی کروں، اس کی آزادی ہندوستان کا اصل تصور تھا اور یہی اس کی سالمیت کو مضبوط کرتا تھا اور اگر ہم سے یہ آزادی چھینی جارہی ہے تو پھر ہم سے ہندوستان بھی چھینا جارہا ہے۔اُن کے مطابق ہندوستان کے اس خیال کو بچانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کیلئے صحیح سوچ رکھنے والوں کا متحدہ ہونا ضروری ہے“۔ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ”اگر مرکزی حکومت کے منصوبے کامیاب ہوئے تو جناب سٹالن صاحب کو بحیثیت وزیرا علیٰ اس بات کی آزادی نہیں ہوگی کہ اُن کا ڈی جی اور چیف سکریٹری کون ہوگا؟ کیرلہ کے وزیر اعلیٰ کابینہ کی میٹنگ میں ہونگے اور اُنہیں ایک فون کال موصول ہوگی کہ اُن کا چیف سکریٹری تبدیل کردیا گیاہے۔کیا یہی وفاقی نظام ہوتا ہے؟کیا یہی ریاستوں کے ساتھ پیش آنے کا طریقہ ہے؟ کیا ایسے ملک کو مضبوط کیا جاسکتا ہے؟کیا لوگوںکو بے اختیار کرکے ملک کی سالمیت قائم رہ سکتی ہے؟“ملک کی دیگر ریاستوں کو ہوشیار کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہ اکہ ”یہ بات سب کو ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جو جموں و کشمیر میں شروع ہوا وہ جموں وکشمیر میں ختم نہیں ہوسکتا۔ جموں وکشمیر میں کئے جارہے تجربے ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی دہرائے جاسکتے ہیں اور آج میں آپ کے سامنے ایک مظلوم کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک وارننگ کے بطور کھڑا ہوں کی آپ کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے؟انہوں نے بتایا کہ میری ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے مرکزی زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیااور یہ سب کچھ جموں وکشمیر کے عوام کی مرضی کے بغیر کیا گیا، اُن سے پوچھا تک نہیں گیا کہ آپ ایسا چاہتے ہیں یا نہیں؟آئین کو تہس نہس کیا گیا،یہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ ایک ریاست کا درجہ کم کرکے اسے ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ بنایا گیا ہو۔اُن کے مطابق گورنر نے جموں و کشمیر میں تبدیلیاں لانے کیلئے نہ صرف اسمبلی کے اختیارات حاصل کئے بلکہ خود کو آئین ساز اسمبلی کے اختیارات بھی تفویض کئے۔کل انہیں (مرکز کو) تمل ناڈو یا کرالہ میں ایسا کرنے سے کون روک سکتا ہے؟انہوں نے کہاکہ میں جموں وکشمیر کے عوام کی طرف سے یہ پیغام لیکر آیا ہوں کہ جو جموں وکشمیر میں شروع ہوا وہ جموں وکشمیر میں ختم نہیں ہوسکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایک نظریہ رکھنے والی جماعتیں ایک ہوکر لڑکیں اور اپنی جدوجہد جاری رکھیں، یہ ایک صحیح اور انصاف پر مبنی جدوجہد ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ لڑائی ایک سیاسی جماعت کیخلاف نہیں بلکہ ایک پوری مشینری کیخلاف ہے، جس میں بڑے بڑے ادارے شامل ہیں، اس لئے جدوجہد آسان نہیں ہوگی، لیکن ہمیں جدوجہد کرنی ہے کیونکہ ہماری جدوجہد سچ پر مبنی ہے۔ اس موقعے پر ملک کے سرکردہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی، کیرلہ کے وزیر اعلیٰ پینارائے وجئے ین،بہار اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو، آر جے ڈی کے قومی ترجمان منوج کمار جاہ ، نیشنل کانفرنس لیڈر تنویر صادق اور تمل ناڈو کے کابینہ وزراءبھی موجود تھے۔