نشہ آور اشیا انسانی صحت کے لئے مضر
ڈاکٹر مرضیہ عارف (بھوپال)
ایڈونچر کی چاہ، دوسروں سے الگ نظر آنے اور برق رفتار زندگی کا مقابلہ کرنے کیلئے نوجوانوں کے ایک بڑے طبقہ میں جانے انجانے نشیلی اشیاء کا چلن بڑھتا جارہا ہے، اور اس برائی نے آج ایک بڑے سماجی مسئلہ کی حیثیت اختیار کرلی ہے، اس کے شکار لوگوں میں بڑی تعداد ان کی ہے جو اپنی ذہنی پریشانی یا اقتصادی بحران سے نجات پانے کیلئے نہیں،موج اور مستی کا لطف لینے کیلئے ڈرگ لیتے ہیں، لیکن ان کے علاوہ بھی لاکھوں نوجوان اور ایسے لوگ ہیں جن کی دنیا پوری طرح نشے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ پوری دنیا میں ۲۶ جون کو نشہ آور اشیاء کے تباہ کن نتائج کے خلاف توجہ دلانے کے لئے ’’عالمی یوم منشیات‘‘ منایا جاتا ہے ۔ یہ اس شعبہ میں جاری سرگرمیوں اور ان کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ نشہ آور اشیاء کے استعمال اور کاروبار کی روک تھام کے طریقے اور قوانین کا تجزیہ کرنے کا موقع بھی ہوتا ہے لہذا اس دن ہمارا سماج منشیات کی لعنت کو اپنے ملک اور معاشرہ سے ختم کرنے کے بعض کارگر پروگرام پر غور وخوض کرکے ان پر عمل کرنے کا عزم کرسکتے ہیں اور نشہ کے عادی لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ ان کی زندگی اور سماج پر اس کے کتنے مضمر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔سالِ گزشتہ ۲۶ جون ۲۰۰۹ء کو ’’عالمی یوم منشیات‘‘ کے موقع پر مختلف سیمی ناروں، ورکشاپوں اور پروگراموں کا اہتمام کرکے ہمیں بتایا گیا تھا کہ نشہ آور اشیاء کے استعمال کا دائرہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے حالانکہ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اقوام متحدہ سمیت دیگر مقامی اور بیرونی ادارے کام کررہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ۲۲ کروڑ لوگ نشہ آور اشیاء کے عادی ہیں۔ سب سے زیادہ بھنگ اور اس سے تیار ہونے والے نشہ کا استعمال ہوتا ہے۔ نشہ کے سب سے زیادہ عادی لوگ براعظم ایشیا میں پائے جاتے ہیں، ورلڈ ڈرگ رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ۱۶ کروڑ ۲۴ لاکھ افراد بھنگ اور اس سے تیار نشہ آور اشیاء کا استعمال کرتے ہیں، دوسرے نمبر پر ایک کروڑ ۴۰ لاکھ افرادکو کین، تیسرے نمبر پر دو کروڑ ۵۰ لاکھ نے ایم فیٹا مائز، ایک کروڑ ۵۰ لاکھ نے افیون، ایک کروڑ ۵ لاکھ نے ہیروئن کے نشہ کو گلے لگا رکھا ہے اور ان اشیاء کا استعمال کرکے ہر سال کروڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔اس وقت نشہ آور اشیاء کی سب سے زیادہ مانگ یوروپ میں ہے۔ جہاں ۷۵ فیصد لوگ ذہنی پریشانیوں سے نجات اور دوسرے امراض سے وقتی سکون کیلئے نشہ کا استعمال کرتے ہیں، یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے دنیا کی بلیک مارکیٹ پر آج کل ایسے افراد کا قبضہ ہے، جن کا اثر ورسوخ حکومت کی سطح تک پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے ڈرگس کا یہ کاروبار دن بدن پھیل رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے ۴۴ فیصد سے زیادہ افراد مختلف قسم کا نشے کرتے ہیں جبکہ تقریباً ایک کروڑ ۵۰ لاکھ باقاعدہ سگریٹ نوشی میں گرفتار ہیں اور ان میں سے ۸۰ کروڑ افراد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ ان میں ۷سو ملین بچے بھی شامل ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے سگریٹ نوشی کی بڑھتی لعنت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس خطرناک رجحان پر قابو پانے کی موثر کوششیں نہیں ہوئیں تو ۲۰۳۰ء تک صرف سگریٹ نوشی کے باعث مرنے والوں کی تعداد کروڑوں تک پہونچ سکتی ہے۔عام طور پر سگریٹ نوشی، تمباکو نوشی اور دوسرے مہلک نشے کرنے والے افراد محض لطف اور سکون حاصل کرنے کیلئے ان کا استعمال کرتے ہیں اور انہیں یہ نہیں معلوم کہ سب سے کم مضر نشہ یعنی سگریٹ میں چالیس ہزار کیمیکلز موجود ہیں، جن میں سے ۴۳ کیمیکل ایسے ہیں جو کینسر جیسے لاعلاج مرض کا سبب بنتے ہیں، سچائی یہ ہے کہ آج دنیا میں بہت سے شوق صرف نقل یا فیشن کے طور پر اپنائے جاتے ہیں اور بعد میں وہ عادت یا مجبوری بن جاتے ہیں جیسا کہ شراب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’شروع میں انسان شراب پیتا ہے، بعد میں شراب انسانی زندگی کو پی کر ختم کردیتی ہے‘‘ کیونکہ نشہ کوئی بھی ہو فطرت اور اس کے تقاضوں سے جنگ کے مترادف ہے۔ہندوستان میں ہرسال ۹-۱۰ لاکھ لوگ تمباکو سے متعلق امراض کی لپیٹ میں آکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان میں پچاس فیصد اموات ۵۰ برس سے کم عمر کے لوگوں کی ہوتی ہیں۔ مرکزی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کی رپورٹ کے بموجب گٹکا کھانے والے نوجوانوں کی تعداد ہندوستان میں تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، یہ نوجوان گٹکا کھانے کے نفع ونقصان کو جانے بغیر تفریح اور شوق کے طور پر گٹکا کھانے لگتے ہیں اور ۲۰-۲۵ سال کی عمر تک پہونچتے پہونچتے اپنی زندگی کو سنگین مصیبت میں ڈال دیتے ہیں۔ گٹکے کے عادی نوجوانوں کے منہ کی کھال سخت ہوتی ہے۔ اور آخر کار وہ کینسر کے مرض میں مبتلاء ہوجاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر چھ سیکنڈ میں اور ہندوستان میں ہر دومنٹ میں ایک موت کی وجہ تمباکو کا استعمال ہوتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے کینسر، دل اور پھیپھڑے کے امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔ لہذا مختلف نشہ آور اشیاء کے استعمال پر قابو پانے کیلئے کئی مورچوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین، حکومت اور سماجی تنظیموں کو اس بارے میں اپنی ذمہ داری نبھانا چاہئے۔ خاندان کی سطح پر گھر میں اسے روکنے کی شروع سے کوشش ہو، اسکول میں اساتذہ نگرانی کریں کیونکہ عام طور پر عمر کا یہی ابتدائی دو رہوتا ہے جب بچے نشہ کی لت میں گرفتار ہوجاتے ہیں، گھر میں ماں باپ اور اسکول میں استاد اگر بچوں کے طور طریقوں پر نظر رکھیں تو وہ انہیں غلط عادتوں کے اختیار کرنے سے باز رکھ سکتے ہیں۔ تیسرا ذریعہ حکومت کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات کا ہے، نشیلی اشیاء کا کاروبار عین حکومت وانتظامیہ کے ناک کے نیچے ہوتا ہے، زیادہ تر نشہ آور چیزیں اسمگلنگ کرکے باہر سے ملک میں لائی جاتی ہیں اور ان کی روک تھام میں حکومت ہی کارگر ہوسکتی ہے، اسی طرح عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی ممنوع ہوگئی ہے، اسکولوں، کالجوں کے آس پاس بھی تمباکو کی فروخت پر پابندی ہے جسے موثر بناکر نشہ آور اشیاء کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے۔