تابناک ماضی کی واپسی یا ایک سراب
برلن،نومبر۔پسماندہ قومیں اپنے مسائل کے حل کے لیے ماضی کی جانب دیکھتی ہیں اور یہ یقین رکھتی ہیں کہ ان کے شاندار ماضی کی واپسی سے نہ صرف ان کے مسائل حل ہو جائیں گے بلکہ وہ دوبارہ سے کھوئی ہوئی شان و شوکت بھی حاصل کر لیں گے۔شاندار و تابناک ماضی کی تشکیل نہ صرف مؤرخ کرتے ہیں بلکہ سیاست دان بھی اس کے ذریعے اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں ان کا شاندار ماضی کئی حصوں میں تقسیم ہے۔ مثلاً اسلام کی ابتداء سے عباسی زوال تک دوسرا دور سلجوق، غزنوی اور صفوی اور مغلوں کا ہے۔ تیسرا شاندار ماضی خلافت عثمانیہ کا ہے، مسلم معاشرے کی سیاست میں ان تینوں ادوار کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔خلافت عثمانیہ کی وسعت اور فتوحات کے بارے میں Mikhail Alan نے اپنی کتاب Shodow God`s کے نام سے لکھی ہے۔ اس تحقیق میں سلطان سلیم 1512-1520 کی فتوحات اور اس کے کارناموں کو بیان کیا گیا ہے۔سلطان سلیم نے اپنے دور حکومت میں ایران کے صفوی حکمران شاہ اسماعیل کو شکست دی۔ مصر کے مملوک خاندان کا خاتمہ کر کے اس کے علاقوں کو عثمانی سلطنت میں شامل کیا۔ قاہرہ میں قیام کے دوران عباسی خلیفہ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک فرد نے جس کا نام المتوکل تھا، اسے خلافت دے دی۔ اس کے بعد سے سلطان سلیم نہ صرف ترکوں کا حکمران تھا بلکہ امت مسلمہ کا سربراہ بھی ہو گیا تھا۔ اگرچہ اس کی خلافت کو نہ صفوی خاندان نے تسلیم کیا اور نہ ہی ہندوستان کے مغلوں نے۔سلطان سلیم کا عہد یورپ کی تاریخ کا انتہائی اہم زمانہ تھا۔ اسی زمانے میں 1492ء میں سپین سے یہودیوں اور مسلمانوں کو نکالا گیا، جس کے نتیجے میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد استنبول میں آ کر آباد ہو گئی، جہاں انہیں پورا تحفظ دیا گیا۔یہودیوں نے ہی سب سے پہلے عثمانیہ سلطنت میں پرنٹنگ پریس لگایا۔ یہی وہ وقت تھا جب 1492ء میں کولمبس نے امریکا دریافت کیا تھا۔ اس عہد میں مسیحی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف سخت تعصب اور نفرت تھی۔اگرچہ صلیبی جنگیں جو گیارھویں صدی سے تیروھویں صدی تک جاری رہی تھیں، وہ تو ختم ہو گئی تھیں مگر دوبارہ سے پوپ لیو صلیبی جنگیں کرنے کا اعلان کر رہا تھا اور ترکوں کے اقتدار اور عثمانیہ سلطنت کی طاقت سے یورپ خوفزدہ تھا۔مثلاً لوتھر جو تحریک اصلاح مذہب کا راہنما تھا، بار بار یہ اعلان کر رہا تھا کہ ترکوں کا عروج یورپ کے لیے خدا کی جانب سے ایک عذاب ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر ترک یورپ میں مکمل طور پر قابض ہو گئے تو پھر مسیحی مذہب اور کلچر تباہ ہو جائے گا لیکن ساتھ ہی میں اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترکوں کے خطرے کی وجہ سے یورپی مسیحیوں کو اپنے مذہب کی طرف واپس آنا چاہیے اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنا چاہیے۔سلطان سلیم کے بعد سلیمان عالی شان 1520-1566 نے مشرقی یورپ میں فتوحات کیں اور آسٹریا کا محاصرہ بھی کیا مگر اندرونی بغاوتوں کی وجہ سے واپس آ گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے اس عروج کے زمانے میں یورپی ممالک اس سے خوفزدہ رہتے تھے، لیکن جیسا کہ دوسری سلطنتوں کے ساتھ ہوا، عثمانی سلطنت بھی زوال کا شکار ہوتی رہی یہاں تک کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا۔مصطفیٰ کمال ترکی جمہوریہ کا راہنما بن کر ابھرا۔ مصطفیٰ کمال نے خلافت اور عثمانی سلطنت کا خاتمہ کر کے ترکی کو جدید ریاست بنانے کا عمل شروع کیا۔ مصطفیٰ کمال کے کردار کی خصوصیت یہ تھی کہ اس نے ماضی کی شان و شوکت اور اس کی فتوحات کے بوجھ کو اتار پھینکا۔ ماضی کی جانب دیکھنے یا سلطنت عثمانیہ کو بحال کرنے کے بجائے اس نے ترکی کو اپنی سرحدوں میں رکھتے ہوئے ایک جدید ریاست بنایا۔ اپنی اصلاحات کے ذریعے اس نے ترکوں کی عادات رویوں اور بحیثیت مجموعی ترکی کو مغربی کلچر سے جوڑا۔کمال ترکی کو ایک پسماندہ مشرقی ملک کی جگہ ترقی یافتہ جمہوری اور سیکولر ملک میں تبدیل کرنا چاہتا تھے، اس لیے انہوں نے عرب ممالک سے اپنے تعلقات ختم کر کے یورپی تہذیب و تمدن کو اپنایا۔ آیاں صوفیہ جو بازنطینی عہد کا چرچ تھا اور جیسے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ مصطفی کمال نے اسے میوزیم بنا دیا۔اگرچہ ترکی کی خواہش کی تھی کہ یورپی یونین کا حصہ بن جائے لیکن اس یورپی بلاک کا حصہ بننے کے کے لیے جو شرائط تھیں، ان کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ ترکی میں کچھ حلقے یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ چونکہ مذہبی طور پر ترک مسلمان ہیں اس لیے ان کی ریاست کو مسیحی اکثریتی یورپی یونین میں جگہ نہیں دی جا سکتی ہے۔ حالانکہ یورپی یونین کے رہنماؤں نے سیاسی طور پر اس امر کا اظہار کسی سطح پر نہیں کیا گیا۔ترکی میں اس پیشرفت کے دو اثرات ہوئے۔ ایک تو یہ تھا کہ اگر یورپ ترکی کو صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے یورپی بلاک کا حصہ نہیں بناتا تو ترک قوم کو اپنی قدیم روایات کی جانب لوٹ جانا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ترکی میں مذہبی تحریکوں کی ابتداء ہوئی۔دوسری جانب وہ لوگ تھے جو ترکی کو سیکولر اور جمہوری رکھنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ضروری نہ تھا کہ وہ مغربی تہذیب کو اختیار کر کے اس کا حصہ بنیں بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ جدیدیت کو اختیار کرتے ہوئے وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کریں اور ملک کو معاشی طور پر مستحکم کریں۔ قدیم اور جدید سوچ کے ان دو نظریات کے درمیان ترکی کے معاشرے میں تصادم ہوا۔ یہاں تک کے اسلام پسند سیاستدان رجب طیب ایردوآن اقتدار میں آ گئے۔ایردوآن نے جدید تہذیب سے دور رہتے ہوئے ترکی کے گمشدہ ماضی کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی کوشش شروع کی۔ ایردوآن اور ان کے حامیوں نے سلطنت عثمانیہ کی شان و شوکت کی طرف رجوع کیا اور اپنے تابناک ماضی کا احیاء کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ مثلاً انہوں نے آیا صوفیہ کو دوبارہ سے مسجد میں تبدیل کر دیا۔ وہ سلطان سلیم کی شخصیت سے بڑے متاثر ہیں، اس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے باسفورس پر جو ایک پل تعمیر کیا گیا اس کو سلیم کا نام دیا۔ایردوآن کی اس پالیسی پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔ کیا اس کا ماضی کی جانب لوٹ جانا اور قدیم روایات کو زندہ کرنا، ترکی کو ترقی کی جانب لے جائے گا یا یہ اسے پسماندہ بنا کر موجودہ مسائل کو حل کرنے میں ناکام کر دے گا، لیکن ترکوں کو جو تاریخ کا ورثہ ملا ہے۔ اس میں جہاں سلطنت عثمانیہ کی عظمت ہے اس کے ساتھ ہی یورپی ملکوں اور اس کے حکمرانوں کی نفرت اور تعصب بھی ہے جو مذہب کی بنیاد پر ترکوں سے گہری دشمنی رکھتے تھے اور اس کے خلاف ان کے عزائم تھے کہ عثمانی سلطنت کو کیسے ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے۔روس کا دعویٰ تھا کہ چونکہ وہ بازنطینی سلطنت کا وارث ہے، اس لیے استنبول پر جو بازنطینی سلطنت کا دارالسلطنت تھا، اس پر روس کا حق ہے۔ روس کی حکمران کیتھرین نے ایک جنگ میں ترکوں کو شکست دی، تو فرانسیسی فلسفی Voltaire نے کیتھرین کو مبارکباد کا خط لکھتے ہوئے اسے یورپ کا نجات دہندہ قرار دیا کہ اس نے یورپ کو ترکوں کے تسلط سے بچا لیا۔جب یورپ کی تاریخ چاہے وہ قدیم ہو یا جدید اس میں ترک اپنے لیے نفرت محسوس کریں تو اس میں ترکوں کا دوستانہ رویہ اختیار کرنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن ترکی کو اس مشکل مرحلے سے نکلنا ہو گا، کیونکہ ماضی کی روایات اس کی ترقی کے راستے میں رکاوٹیں ہی بنیں گی۔جدید تہذیب کو یورپی یونین میں شامل ہونے کی خواہش سے آزاد ہو کر اختیار کرنا ہو گا اور مغرب کی تقلید کے بجائے اپنی ضرورت کے لیے اپنا علم تخلیق کرنا ہو گا، اگر اس پر عمل ہوتا ہے تو یہ نہ صرف ترکی بلکہ دوسرے مسلمان ملکوں کے لیے بھی راہنمائی کا باعث ہو گا۔