اگلی بار کیا ہوگا؟
رابطہ…مریم فیصل
جب سے کورونا وبا کا آغاز ہوا، ساری دنیا کا دھیان صرف اسی طرف ہوگیا تھا کہ کس طرح اس سے جان چھڑائی جائے اور اب جیسے جیسے اس کا زور ٹوٹ رہا ہے بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ بہتر ہوگا کہ اس کے ساتھ زندگی گزارنے کی عادت ہوتی جارہی ہے، اب دنیا کا دھیان اس بات پر ہے کہ دوبارہ سے زندگی کو نارمل انداز میں گزارنے کی شروعات کی جائے، جس میں سب سے اہم قدم ہے معیشت کی بحالی اور ظاہر ہے کہ بڑے ممالک تو اپنا رخ اس طرف تیزی سے موڑ رہے ہیں کہ اب دوبارہ سے دھیان ترقی کرنے پر دیا جائے۔ برطانیہ میں ہونے والی حالیہ دو بڑی کانفرنسیں، جو ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے منعقد کی گئی تھیں ،ان میں برطانوی عوام کو یہی باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ بریگزٹ اور کورونا کے بعد برطانیہ کو پھر سے مضبوط ریاست بنانا ہے۔ لیبر پارٹی کے لیڈر کیئر اسٹارمر جہاں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے کہ بورس جانسن کے دور حکومت میں برطانوی عوام ان تمام بینیفٹس اور حقوق سے محروم ہوتے جارہے ہیں جو برطانیہ جیسی فلاحی ریاست میں عوام کو حاصل ہوتے ہیں، وہیں وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنے دم دار انداز میں عوام کو یہ سمجھا دیا کہ برطانیہ بریگزٹ کے بعد یورپی یونین کے بغیر اپنے قدم جمانے کے لئے صحیح سمت کی جانب رواں دواں ہے اورہم نے کورونا وبا میں خطیر سرمایہ خرچ کر کے برطانوی معیشت کو بحران سے نکال لیا ہے۔ اگر دونوں لیڈروں کی تقریروں کا موازنہ کیا جائے تو وزیر اعظم بورس جانسن کا انداز زیادہ مستحکم اور مضبوط نظر آیا ہے کیونکہ ایک تو جانسن اپنی پارٹی کے کئی بڑے لیڈروں کے سائے تلے سیاست کر کے اس میدان کے کافی گر سیکھ چکے ہیں، دوسرا وہ لکھنے کے ساتھ بولنے میں بھی کافی مہارت رکھتے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ سامعین کو کیسے مسحور کر نا ہے، اس لئے انھوں نے روزگار کی فراہمی اور ٹیکسوں میں کمی جیسے الفاظ استعمال کرکے کانفرنس کے سامعین کو ہی نہیں بلکہ قوم کے دل بھی جیت لیئے ہیں، کیونکہ یہی وہ دو اہم الفاظ ہیں جن کے گرد ایک عام آدمی کی زندگی گھومتی ہے، یعنی بہتر روزگار اور کم سے کم ٹیکس، اپنی تقریر سے انھوں نے اگلی بار بھی الیکشن میں اپنی پارٹی کے لئے جیت کے ٹکٹ کو کافی حد تک محفوظ کر لیا ہے، البتہ ان کو پکی کامیابی کے لئے حالیہ جو گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے، اس پر قابو پانے کے لئے اقدامات کرنے ہونگے کیونکہ سردی کا آغاز ہو رہا ہے اور اس سیزن میں گیس کا استعمال زیادہ بڑھ جاتا ہے، ایسے میں اگر صارف کو اضافی بلز کی ادائیگی اپنی جیب سے کرنی پڑی تب ٹوری پارٹی کے لئے اپنے ووٹرز کو روکے رکھنا آسان نہیں ہوگا۔حالانکہ لیبر کے لیڈر اسٹارمر کے پاس بھی حکومت بنانے کے لئے اپنے روٹھے ووٹرز کو واپس لانے کے لئے کوئی بہت پرکشش منصوبے نہیں ہیں لیکن ووٹرز کے مزاج تبدیل ہونے میں کوئی دیر بھی نہیں لگتی ہے۔ نا معلوم کب ووٹرز کویہ احساس ہونے لگے کہ ٹوری پارٹی کو چار بار حکومت بنانے کا موقع دے کر ناصرف بہت سارے بینیفٹس سے ہاتھ دھونا پڑا ہے بلکہ مہنگائی کا طوفان بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے اس لئے بہت وقت بعد ہی صحیح، لیبر پارٹی کو اقتدار میں آنے کاموقع دے ہی دینا چاہیے اور اگر ایسا ہوگیا، تب ہوا کا یہ بدلتا رخ جانسن حکومت کے لئے کورونا کے بعد بحران کے نئے دور کا آغاز بھی ثابت ہو سکتا ہے۔