سرور دوعالمﷺکی مکہ سے مدینہ ہجرت
تحریر:علامہ محمد اسمٰعیل۔۔۔واتھم سٹوو
آقا نبی ﷺکو مکہ سے ہجرت کئے 1442 سال ہو چکے ہیں، اب محرم الحرام سے اسلامی سال کاآغاز ہو گیا ہے، اب کلینڈرز، کاروباری معاہدوں، کنٹریکٹ کے دستخطوں پر 1443 ہجری لکھا جائے گا، ہندوستان، پاکستان، برطانیہ، یورپ میں ہجری سال نہیں لکھا جاتا لیکن گلف کی ریاستوں میں تحریرمیں اسلامی مہینہ اور سال ضرور لکھا جاتا ہے، ہم یوں تو خاک مدینہ منورہ اور مدینہ کی گلیوں کے لئے تڑپتے رہتے ہیں لیکن ذکر سیدالکونین ، ریاست مدینہ منورہ اور سیرت طیبہ نہیں چھیڑتے، یہ لمحہ فکریہ ہے، ذکر حبیبﷺسے یقیناً ہماری نئی نسل کو معلومات مل سکتی ہیں کہ ہمارے پیارے نبی ﷺنے کس بے سروسامانی کے عالم میں مکہ سے ہجرت مدینہ کی۔ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ دو رکنی یہ قافلہ غار ثور میں تین راتیں گزار کر چھپتے چھپاتے مدینہ منورہ کی طرف چل دیا، کھانے پینے کا سامان کچھ نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ پر توّکل اور بھروسہ اتنا تھا کہ جب کھوجی بن کر سراقہ بن مالک آپﷺکو پالیتا ہے تو آپﷺاسے دیکھ کر فرماتے ہیں کہ سراقہ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب تجھے قیصروکسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے وہ ہکا بکا ہو کر آپ سے امان کی تحریر لکھواتا ہے ،ہجرت مدینہ اسلام کی بقا کے لئے تھی، اسلام کی اشاعت کے لئے تھی، کافروں کے تابوت پر آخری کیل نصب کرکے یہ پیغام دینا تھا کہ اسلام غالب ہو کر رہے گا، آپﷺکی منزل یثرب تھی، پہلے یہ بنجر زمین تھی، اب نبی ﷺکے قدم رنجا فرمانے سے انوار کا مرکز بن گئی، یوں یثرب مدینہ منورہ کہلانے لگا ،قبیلہ بنی نجار اور انصار نے آپ کا فقیدالمثال استقبال کیا، آپﷺنے مدینہ منورہ پہنچ کر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی اور نمازوں کا سلسلہ شروع کیا یوں ریاست مدینہ منورہ دنیا کے نقشے پر ابھری۔ آپ ﷺکو نبوت 40 سال پر ملی، 13 سال مکی زندگی میں تکلیفیں اٹھائیں، اصحاب رسولﷺنے ماریں کھائیں، آپ کے بے بہا ساتھی، جانثار صحابہ، صحابیات نے دین اسلام کیلئے جانیں نثار کیں۔ تب ممکن ہوا ریاست مدینہ کا سنگ بنیاد رکھنا۔ ہجرت کہنا تو آسان ہے اگر ہم سمجھیں تو ہجرت مدینہ صبر، برداشت، ہمت، اتحاد، یکجہتی اپنے مشن پر مرمٹنے، اپنی ذات پر مشکل حالات میں دوسرے کو ترجیح دینے یا اپنے پر دوسرے کو ترجیح دینے، بھائی چارے، عدل و انصاف، قانون کی حکمرانی، سیلف ریسپکٹ، خدا ترسی، غریب پروری، انسانوں کو بندوں کی بندگی سے نجات دلانے اور اللہ کا معبود بنانے اور محبوب خدا کی غلامی اور اس کا اور اس کے دامن سے لپٹنے کا نام (ہجرت مدینہ) ہے۔ 610 عیسوی سے داستان اسلام رقم ہونی شروع ہوئی، 13 سال مکہ مکرمہ میں رہ کر 622 عیسوی میں آپﷺنے مدینہ منورہ کا رخ کیا ہجرت کے چھٹے سال صلح حدیبیہ ہوئی اور ٹھیک ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ ہوا اور یوں عرب حجاز کی لیڈرشپ آپ کے ہاتھوں میں آئی۔ آپ نے دین کو اپنے اخلاق حسنہ ، اخوت و محبت سے پھیلایا۔ آج بھی دنیا میں جنگ و جدال، بے چینی، اضطراب، بھوک، غربت، ظلم، ناانصافی، قتل و غارت گری، وبائی امراض سے بچنے کا واحد حل امت کو آقائے نبی رحمت ۃ کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے۔ وحدت امت کے لئے آپ کا خطبہ حج الوداع اور میثاق مدینہ کا کردار ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں اور آئیڈیل ہیں آج بھی سسکتی ہوئی انسانیت کے لئے یہی پناہ گاہ ہے، مسلمان خود بھی اپنے اخلاق و معاملات کو سرکار مدینہﷺکے نقش قدم پر چلائیں تو نفرت کی آگ بجھائی جا سکتی ہے اور ہم سب شیروشکر بن سکتے ہیں اور انسانیت کو عافیت کے دامن میں پناہ مل سکتی ہے کیونکہ یہی صراط مستقیم ہے یہی سلامتی کا راستہ ہے سرکار مدینہﷺکا معجزہ قرآن پاک آج بھی اصلی حالات میں ہمارے پاس موجود ہے صرف عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، اسلامی سال کے آغاز پر مختلف جگہوں پر سیرت نبوی ﷺکے حوالے سے بات کی جائے اور دین اسلام کے لئے جنہوں نے قربانیاں دی ہیں انکا ذکر کیا جائے۔