بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں, والدین بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں
اللہ رب العزت کی بے شمار نعمتوں، نوازشوں اور احسانات میں سے ایک عظیم نعمت اولاد ہے۔اس نعمت کی قدر ذرا ان لوگوں سے پوچھ کر دیکھیں جو اس خوشی سے اس نعمت سے محروم ہیں۔ وہ اسے پانے کے لئے اپنا قیمتی وقت اور دولت صرف کرتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ دولت خرچ کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اولاد والدین کے پاس اللہ تعالی کی امانت ہوتے ہیں۔ قیامت کے دن والدین سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا کے انہوں نے یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی یا نہیں اس امانت کی حفاظت کی تھی یا اسے برباد کیا تھا۔
اولاد اللہ رب العالمین کا سب سے بڑا قیمتی تحفہ ہے۔۔۔۔یہ تحفہ ایسا ہے جس کے لئے انبیاء کرام نے بھی نیک اور صالح اولاد کی دعائیں مانگی۔مال و دولت اور اولاد دنیا کے لئے زینت تو ہے ہی لیکن یہ آزمائش بھی ہیں۔ اولاد کی تربیت نہایت ضروری ہے۔ کیوں کہ یہی اولاد آگے چل کر اس روئے زمین کی فلاح کا انحصار ہوگی۔ ماں کی گود ہی اولاد کا پہلا مکتب ہے۔۔۔۔اور ماں کی گود کو اولاد کا پہلا مکتب اس لئے کہا گیا ہے کہ اولاد کی تربیت میں ماں کو ایک اہم اورخاص مقام دیا گیا ہے۔ وہ نیک سیرت اور پاکیزہ مائیں ہی تو تھیں جنہوں نے اسلام کو عظیم مصلحین، علماء اور اولیاء کرام سے نوازا ہے جن کی علمی، اصلاحی اور دعوتی جدوجہد نے مختلف ادوار میں اسلام کو ظلم سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن کیا۔ جب بھی عالم اسلام کو معاشرتی، تہذیبی، اخلاقی اور مذہبی زوال نے گھیرا یا پھر دشمن کی مخالف سازشیں کامیاب ہونے لگیں تو انہیں نیک سیرت ماؤں کے نیک صالح بیٹوں نے عالم اسلام کی رہبری و رہنمائی کی ہے۔ قرآن کی تعلیمات کو عام کیا۔ اپنی جانیں گنوائی اور اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر طوفان کو اپنا راستہ بدلنے پر مجبور کردیا۔اس لئے ماں نیک ہوگی تو وہ اپنے بچوں کی تربیت صحیح کر پائے گی۔
بچپن میں ہی کی گئی تربیت بچوں کے دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے۔بچپن میں ہی اگر بچوں کی صحیح دینی واخلاقی تربیت کی جائے تو بڑے ہونے کے بعد بھی وہ تہذیب و تمیز اور اخلاق پر ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ جیسے پتھر پر کھینچے گئے نقش ہوں۔ ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کے اولاد اللہ رب العزت کا نہایت ہی قیمتی انعام ہے۔رب العزت نے اپنے کلام میں انہیں زینت اور دنیاوی زندگی میں رونق بیان کیا ہے لیکن یہ رونق وبہار اور زینت اس وقت ہے جب اس نعمت کی قدر کی جائے دین واخلاق اور تعلیم کے زیور سے انہیں آراستہ کیا جائے۔ بچپن ہی سے ان کی صحیح دیکھ بھال ہو دینی تربیت کا خاص خیال رکھا جائے۔ اسلامی ماحول میں انہیں پروان چڑھایا جائے۔۔۔حقوق صرف اولاد کے ہی نہیں ہوتے بلکہ والدین پر بھی اولاد کے حقوق ہیں۔ ان میں سب سے اہم اْن کی دینی تعلیم اور اچھی تربیت ہے۔تعلیم اور تربیت میں سب سے زیادہ اہم چیز تربیت ہے جبکہ ہم آدھی سے زیادہ زندگی تعلیم حاصل کرنے پر صرف کر دیتے ہیں۔ ویسے علم تو ابلیس کے پاس بھی بہت تھا۔ اسلام نے عصری تعلیم کو ہرگز منا نہیں کیا لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حصول اور اسلام کے ارکان کا جاننا تو ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس پر آخرت کی فلاح وکامیابی کا بھی دار و مدار ہے۔جب تک دین کی بنیادی تعلیم سے آگاہی اور اس پر عمل نہ ہو توحید و رسالت اور آخرت پر صحیح ایمان نہ ہو یا نماز روزہ اور قرآن کی تلاوت سے اور روز مرہ کی زندگی کے احکامات سے غفلت ہو۔ جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی چاہئے اسی طرح والدین کی یہ بہت ہی اہم ذمہ داری ہے کے وہ اپنی اولاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کے ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جس کسی شعبے میں بھی رہیں ایمان وعمل سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم رہیگا بلکہ بہت مضبوط بھی ہوگا۔
دور حاضر میں والدین دنیاوی زندگی کی بہت حد تک بچوں کے بہتر مستقبل کی خوب فکر اور کوشش میں دن رات ایک کرتے ہیں۔ اس کے لئے محنت کرتے ہیں تاکہ وہ معاشرہ میں سرخرو رہیں اور آرام کی زندگی گزار سکیں لیکن اس دنیا کی چھوٹی سی زندگی کے بعد آخرت کی جو کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی ہے وہاں کی سرخروئی سے خود بھی غافل رہتے ہیں اور اپنے بچوں کی تربیت میں بھی اس پہلو کو اہمیت نہیں دیتے۔ جتنی عصری تعلیم کے لئے جدوجہد کی جاتی ہے اتنی دینی تعلیم کے لئے نہیں کی جاتی۔ بچوں کا ذہن صاف وشفاف بلکل کورے کاغذ کی طرح خالی ہوتا ہے اس میں جو لکھناچاہے جو بھی نقش کھیچنا جائے وہ مضبوط وپائیدار ہوتا ہے۔بچپن میں بچے کے لئے علم کا حصول پتھر پر کھینچے نقش کی طرح ہوتا ہے۔ بچپن میں جو چیز دماغ میں بٹھادی جائے وہ پائیدار اور مضبوط ہوتی ہے جیسے زمین سے اْگنے والے نرم ونازک پودوں کی طرح بچوں کے خیالات و فکر اور طرز زندگی کو جس طرح جس رخ پر چاہے با آسانی سے موڑا جاسکتا ہے جب وہ بڑے ہوجائیں اور اْن کی عقل پختہ ہوجائے تو ان میں تبدیلی نا ممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہوتی ہے اس لئے شروع سے ہی مطلب ابتدائی عمر میں ہی بچوں کی نگرانی اور ان کی صحیح تربیت والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ لڑکا ہو یا لڑکی ہو دونوں کی تربیت ایکساں کرنی چاہئے۔ اگر بیٹی کو پردہ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے تو بیٹوں کو بھی اپنی نگاہوں کو نیچی کرنے کی تلقین کریں۔ ماں بہن بیٹیوں کی عورت کی عزت کرنا سیکھائیں۔
تعلیم جتنی ضروری ہے اس سے زیادہ تربیت ضروری ہے۔آجکل جومیاں بیوی کیجھگڑے معمولی معمولی باتوں پر طلاق اور خلہ کے تقاضے۔والدین سے بدسلوکی بدتمیزی گھر سے باہر نکالنا دینا، در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے اکیلا چھوڑ دینا۔۔ رشتہ داروں میں بھائی بہنوں میں اختلافات پیدا ہونا۔۔ رشتوں ناطوں سے زیادہ مال و دولت اور چیزوں کو ترجیح دینا۔۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر گالی گلوچ کرنا۔۔۔اپنے سے بڑوں کا احترام نا کرنا اور نا جانے کئی ایسی وجوہات ہیں جو سب کی سب بتا رہیں ہیں کہ یہ پڑھی لکھی ایجوکیشنل نسل تربیت سے بلکل پرے ہے۔اپنی اولاد کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے زیور سے بھی آراستہ کیجئے تاکہ ایک صاف شفاف اور نیک معاشرہ تشکیل پا سکے۔ایک بات ذہن نشین کر لیں تعلیم کی کمی کو تربیت ڈھانپ سکتی ہے پر تربیت کی کمی کو تعلیم نہیں ڈھانپ سکتی۔جتنی تعلیم ضروری ہے اس سے زیادہ تربیت ضروری ہے۔ بچے پالنا کوئی بڑا کام نہیں یہ کا صدیوں سے جانور چرند پرند بڑے بہت اچھی طرح سے کرتے آرہے ہیں۔ بڑا کام ہے بچوں کی اچھی تربیت کرنا۔