مدھیہ پردیش کے یوم قیام پر کچھ باتیں

عارف عزیز(بھوپال)

ریاست مدھیہ پردیش کے ۶۵ سال کا سفر آج پورا ہوگیا ہے، یہ ریاست یکم نومبر ۱۹۵۶ء کو ہندوستانی ریاستوں کی تنظیم جدید کے نتیجہ میں معرضِ وجود میں آئی تھی اور حدود اربعہ کے لحاظ سے ہندوستان کی سب سے وسیع وعریض ریاست تسلیم کی گئی تھی، اپنے جائے وقوع کے لحاظ سے اسے ہندوستان کا دل بھی کہا گیا، کیونکہ یہ ملک کے تقریباً وسط میں واقع ہے، چار مختلف ریاستی یونٹوں کو شامل کرکے اسے بنایا گیا تھا ، اپنے قیام کے وقت یہ سات دیگر پردیشوں سے گھری ہونے کے علاوہ اعلیٰ معدنیات اور قدرتی وسائل سے بھی مالامال تھی،۲۰۰۰ ء میں ریاست مدھیہ پردیش کا ایک اہم حصہ چھتیس گڈھ اس سے الگ ہوگیا، پھر بھی اس کا حدود اربعہ ۳ لاکھ ۸ ہزار ۲۴۵ مربع کلو میٹر پر محیط ہے، آبادی چھ کروڑ تین لاکھ سے زیادہ ہے جو ۴۸ اضلاع پر پھیلی ہوئی ہے۔
نصف صدی کے اس سفر کے دوران مدھیہ پردیش نے کئی نشیب وفراز دیکھے اور متعدد تاریخی واقعات کی یہ ریاست گواہ بنی ہے، اسی طرح پسماندگی سے ترقی تک کا سفر اس نے طے کیا ہے، کبھی اس ریاست کو ملک کی بیمار ریاستوں میں شمار کیا جاتا تھا، یہاں کی زمین پنجاب اور اترپردیش کی طرح زرخیز نہیں تھی، اسی لئے سویابین کی کھیتی کو یہاں کیلئے مفید سمجھ کر اپنایا گیا، جو کم بارش میں بھی اچھی فصل دیتی ہے، بجلی کی پیداوار یہاں پہلے بھی ضرورت سے کم تھی، چھتیس گڑھ کے علاحدہ ہونے کے بعد اس کمی نے مزید شدت اختیار کرلی ہے ایسے جملہ مسائل سے آنکھیں چار کرکے آگے قدم بڑھانے کا ریاست نے ایک اچھا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ صحیح ہے دوسری ترقی یافتہ ریاستوں کے مقابلہ میں مدھیہ پردیش میں ترقی کی رفتار دھیمی رہی ، لیکن امن وامان کے اس جزیرے میں ترقیات کیلئے مسلسل جدوجہد کرکے امکانات کے آسمان پر اڑان بھرنے کا جذبہ یہاں شروع سے حاوی رہا ہے اور اس میں خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ ریاست آج بھی مالوہ، چنبل، وندھیہ اور مہاکوشل کے خانوں میں تقسیم ہے اور یہ تقسیم ترقی کے علاقائی عدم توازن سے مزید گہری ہوگئی ہے، چھتیس گڈھ علاحدہ ہونے میں خواہ سیاست کی کار فرمائی زیادہ رہی ہو لیکن علاقائیت کی جذباتی لہر اور غیر متوازن ترقی بھی اس کے پس پشت ایک بڑا سبب کہا جاتا ہے۔
ایک شکایت یہ بھی ہے کہ پچھلے پچاس برس کے دوران، جس علاقہ سے جو وزیر اعلیٰ اقتدار پر مسند نشین ہوا، اس نے اپنے علاقے کی ترقیات پر زیادہ توجہ دی، اس کا فطری نتیجہ ریاست کے دوسرے علاقوں کی پسماندگی اور بے چینی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ چھتیس گڑھ کے الگ ہونے اور علاحدہ مہاکوشل ریاست کے قیام کی مانگ بھی اسی لئے ہوتی رہی ہے کہ مذکورہ یونٹوں کی ترقیات اور مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہی شکایت ریاست کے دارالحکومت بھوپال کیلئے بھی کی جائے تو بیجانہ ہوگی کہ یہاں گزشتہ باون سال کے عرصہ میں منصوبہ بند طریقہ سے شہر کو ترقی دینے اور میٹرو پولیٹن شہر بنانے کا کام نہیں ہوا، آبادی میں جس برق رفتاری سے اضافہ ہوا، اس کی ضرورتوں کے پیش نظر شہر کو ترقی نہیں دی گئی، آزادی کے وقت ۲۷ مربع کلومیٹر پر آباد شہر آج بڑھ کر چار سو مربع کلو میٹر تک وسیع ہوگیا ہے لیکن ضروریات زندگی اور آمدورفت کے وسائل کا شدید فقدان ہے۔ پہلے رسول احمد صدیقی کی توجہ اور اس کے بعد بابولال گور کی کوشش سے بنیادی سہولتوں میں اضافہ کیلئے کام ہوا لیکن ان کے جانے کے بعد سردمہری کا ماحول پھر طاری ہوگیا ، عارف عقیل کو کام کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا پھر بھی انہوں نے پرانے شہر کی تصویر بدلنے کیلئے جو کچھ بن سکا اس سے گریز نہیں کیاآج بھی اس کی فکر ان پر حاوی ہے۔ ایک اور مسئلہ اس شہر کو اپنی شناخت برقرار رکھنے کا درپیش ہے، بالخصوص پرانا شہر مسائل کا جنگل بنتا جارہا ہے یہاں کے پارک، تفریحی مقامات اور تاریخی عمارات کو جان بوجھ کر برباد کیا گیا تاکہ شہر کا پرانا چہرہ مسخ ہوجائے یہی وجہ ہے کہ بھوپال کے قدیم شہری خود کو آج اجنبی سمجھنے لگے ہیں، یہ شہر جو دوسالہ تاریخ کا امین ہے اس کی زبان اور تہذیب کا حلیہ بھی بگاڑ دیا گیا ہے۔ لہذا ریاست کے ۶۵ ویں یوم سالگرہ پر اس کا عہدہونا چاہئے کہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بھوپال کو اس کا واقعی مقام دلانے پر توجہ دی جائے گی۔

 

Related Articles