ملک میں کرپشن بڑھنے کی وجہ بڑی مچھلیوں کو چھوڑ دینا ہے
عارف عزیز (بھوپال)
ہندوستان کو آزاد ہوئے ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن افسوس آج تک ہمارا ملک کرپشن سے آزاد نہیں ہوسکا ہے۔ اب تو کرپشن کا یہ گراف اتنا بڑھ گیا ہے کہ عام آدمی کو سرکاری محکموں یا عوامی خدمات کے جائز استعمال میں بھی رشوت دینی پڑ رہی ہے۔ جمہوری نظامِ حکومت اپنانے کے باوجود کرپشن کا چلن حیرت انگیز ہی نہیں افسوسناک بھی ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں تقریباً دو سو دس ارب روپئے کی رشوت ہر سال لی اور دی جاتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کچھ عرصہ قبل جاری کی گئی تھی، عین ممکن ہے رشوت کی رقم کی ادائیگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہو۔ملک میں کرپشن کے عروج کی سب سے بڑی وجہ یہاں کا اندھا قانون بھی ہے۔ عوام نے بار ہا دیکھا کہ جتنی بھی بڑی مچھلیاں بدعنوانی کے الزام میں پھنستی ہیں، آخر کار چھوٹ جاتی ہیں، جب کہ کوئی کسی کی پاکٹ بھی اڑا لے تو اُسے اتنا پیٹا جاتا ہے کہ اس کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ہندوستان کے ۹۶ فیصد باشندے ہندوستان کو بدعنوانی اور کرپشن کا گڑھ قرار دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کرناٹک کی ریاست نے بدعنوانی کے بارے میں ۲۵ ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ چھاپی جس میں بتایا گیا کہ ہندوستان کے ’انسداد بدعنوانی‘ کے ادارے دراصل ’امداد بدعنوانی‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اکانومسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی سالانہ رشوت اور کرپشن کا حجم ۱۲؍ ارب ڈالروں سے تجاوز کر چکا ہے۔ مخلوط حکومتوں کے چلن کی بدولت بھی کرپشن میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ مخلوط حکومتوں میں کرپشن اور بدعنوانی کے ذریعے ہی دیگر جماعتوں کو راضی کیا جاتا ہے اور پھر کرپشن کا یہ سلسلہ ایک طویل عرصے تک جاری رہتا ہے۔سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ رشوت خوری کے معاملات میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کا جینا ہی کیا مرنا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ ہندوستان کے ایک ارب سے زیادہ لوگ غربت کی آخری لکیر سے نیچے غرق ہوچکے ہیں۔ سیاست داں اور ماہرین اقتصادیات ۲۰۲۰ تک ہندوستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں یعنی عوام کو مونگیری لال کے حسین سپنے دکھا رہے ہیں۔ کیا وہ اس تلخ حقیقت سے واقف نہیں ہیں کہ کرپشن کے ہوتے ہوئے ہندوستان کی ترقی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بدعنوان نوکر پیشہ، سیاست داں، ٹھیکیدار اور مجرموں کے اشتراک نے کرپشن کو مزید زہرناک بنا دیا ہے۔ ممبران پارلیمان کو سالانہ دو کروڑ روپئے ملا کرتے ہیں، اس طرح پانچ سال تک پارلیمنٹ کا ہر ممبر دس کروڑ روپئے خرچ کرنے کا مجاز ہے۔ یعنی ملک کے پارلیمانی حلقوں میں ترقیاتی امور پر پانچ سال کے دوران سات ہزار پانچ سو کروڑ روپئے صرف ہونے چاہئے لیکن کیا یہ رقم ترقیاتی کاموں پر خرچ کی جاتی ہے؟ اگر اس رقم کو ایمانداری کے ساتھ خرچ کیا جائے تو ملک کی حالت بدل سکتی ہے لیکن بیشتر نیتاؤں کو ملک سے زیادہ اپنی حالت کے بدلنے کی فکر رہتی ہے۔ اتنا ہی نہیں سبسڈی کی بیشتر رقم تک بدعنوانوں کی جیب میں بڑی آسانی کے ساتھ پہنچ جاتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہمارے نام نہاد نیتاؤں کی جانب سے ہندوستان کو رشوت سے پاک کرنے کی باتیں کرنا دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے کے مصداق ہی ہے۔