اگر صورت حال نہیں بدلی ، حکمت عملی نہ تبدیل ہوئی تو 2022 میں سائیکل کا ہینڈل ہی نہیں ، صرف ٹوئٹر کا ہینڈل رہے گا
محمد کامران
سماج وادی پارٹی کےنوجوان قومی صدر اور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلی لکھیم پور کے کسانوں کی تحریک کے لیے اپنے ایئر کنڈیشنڈ کمرے سے باہر آئے لیکن چار قدم بھی نہیں چل سکے اور ہاتھ جوڑ کر اپنے ہی گھر کے سامنے بیٹھ گئے۔ اسی دوران پر دہلی سےاڑییرینکا گاندھی کی ایسی آندھی آئی کہ اس کا اثر پورے ملک میں نظر آیا۔ سرکاری انتظامیہ کے تمام افسران اور اتر پردیش حکومت کی پولیس فورس کے ساتھ لڑتے ہوئے پوری دنیا نے ملک کی اس خاتون کا انداز دیکھا اورعوام کے لیے ان کی لگن کی تعریف بھی کی۔
لکھیم پور میں پیش آنے والے ہولناک واقعے پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے مرہم پٹی لگاتے ہوئے مہلوک کسانوں کے کنبوں ک سرکاری نوکریاں اور 45 لاکھ روپے دینے کا جوعلاج شروع کیا ہے ، اس کا بی جے پی کو انتخابات میں کتنا فائدہ ملے گا اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ، لیکن جس طرح کسان رہنماؤں نے ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ کا ہیلی کاپٹر لکھیم پور میں اترنے نہیں دیا ، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے انتخابات میں بی جے پی کے لیے کتنی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
آئی ٹی سیل اسی پروپیگنڈے میں رہا کہ کسانوں کی تحریک میں کسانوں کی کوئی شرکت نہیں ہے لیکن لکھیم پور میں پیش آنے والے واقعہ نے آئی ٹی سیل کی تمام کوششوں کو برباد کر دیا ہے اور وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا اور ان کے حامیوں کے تشدد کا ننگا ناچجو لکھیم پور میں کیا گیااس نے پورے ملک میں کسانوں کی تحریک کو ہوا دے دی ہے۔
لکھیم پور کسان آندولن پربہوجن سماج وادی پارٹی کی خاموشی بھی دیکھنے کو ملی ، مایاوتی اور ستیش چندر مشرا نے اپنے اپنے گھروں سے نکلنے کی کوشش بھی نہیں کی ،
بی ایس پی سربراہ کی خاموشی آئندہ انتخابی مساوات کا آئینہ بھی دکھاتی ہے ، جس سیاسی جماعت کے ساتھمشترکہ حکومت بنائے جانے کا قیاس لگایا جارہا ہے لکھیم پور معاملے پر خاموشی اسی بات کا ثبوت ہے۔
پرسپا صدر شیو پال یادو کے گھر کے باہر پولیس فورس لگاکر ان کےباہر جانے کے راستے بند کر دیے گئے تھے ، لیکن زمینی رہنما پولیس کو چکمہ دے کر گھر سے نکل تو ہو گئے لیکن زیادہ دور نہ جا سکے اور گرفتار کر لئے گئی جبکہ سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اپنے گھر سے چار قدم نہ چل سکے اور صرف چند گھنٹے میں چھوٹ کر واپس اپنے گھرجاکر ٹویٹر ہینڈل سنبھال لیا۔ اس کے برعکس ، پرینکا گاندھی کو بغیر کسی حکم کے اور بغیر کسی مقدمے کے گزشتہ 28 گھنٹوں سے حراست میں رکھا گیا ہے اور کانگریس کارکن پورے ملک میں لکھیم پور کے کسانوں کی آواز بلند کر رہے ہیں اور پرینکا گاندھی کو رہا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
لکھیم پور کے اس واقعے سے ایک بات یقینی ہے کہ پرینکا گاندھی کی مقبولیت پورے ملک اور دنیا میں بڑھ رہی ہے اور دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہ اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔