جیمز بانڈ:جب بھی کوئی نیا اداکار جیمز بانڈ بنتا ہے تو سیریز بھی خود کو تبدیل کر لیتی ہے

لندن،ستمبر۔جیمز بانڈ ایک ایسا شخص ہے جس کے پاس مرنے کے لیے تو وقت نہیں لیکن اسے دوبارہ زندہ ہونے کا تجربہ بہت ہے۔ اس کے کردار کو بڑی سکرین پر پہلی بار سنہ 1962 میں فلم ڈاکٹر نو میں دیکھا گیا، اب تک سات اداکاروں نے اس کردار کا مشہور لباس 007 ٹکس پہنا ہے اور اب اس میں ایک اور اداکار کا جلد اضافہ ہونے جا رہا ہے۔اس ماہ کے اواخر میں ریلیز ہونے والی اس تاریخی جاسوس فلم میں ہم آخری مرتبہ مارٹینی پینے والے پراسرار کردار کے روپ میں ڈینیئل کریگ کو دیکھیں گے، اور اس مرتبہ بھی ریلیز کے قریب آتے ہی اس حوالے سے چہ میگوئیاں شروع ہو گئی ہیں کہ ان کی جگہ کون لے گا۔رچرڈ میڈن، ٹام ہارڈی اور برجٹن کے سٹار ریگی جین پیج کے حوالے سے افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو ایم آئی سکس سروس کے لیے چنا جائے گا۔ تاہم فی الحال بڑا سوال یہ نہیں ہے کہ بانڈ کا کردار کون ادا کرے گا، بلکہ یہ ہے کہ انھیں بانڈ کا کس قسم کا کردار کرنے کو ملے گا؟ڈاکٹر جاپ ویرہیول جو خفیہ ایجنٹ پر مقالوں کے ایک مجموعے کے مدیر ہیں کہتے ہیں کہ ‘ہر دفعہ جب بانڈ کے کردار کو ایک نیا اداکار نبھاتا ہے تو سیریز اپنے آپ کو ناظرین کی خواہشات کے اعتبار سے ڈھال لیتی ہے۔اس کے لیے آپ کو آخری مرتبہ 007 کے کردار میں تبدیلی کے بارے میں تفصیلات دیکھنی ہوں گی۔ کریگ کا دور سنہ 2006 میں شروع ہوا جب انھوں نے کیسینو رویال میں اداکاری کی۔ یہ فلم 9/11 کے بعد بنائی گئی تھی اور اس پر اس کے بعد کے واقعات کا خاصا اثر تھا۔جوڈی ڈینچ کا کردار جو فلم میں ولن کا تھا، دراصل القاعدہ کے ساتھ مل کر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوتا ہے۔ اس فلم میں007 کے لہجے میں بھی تبدیلی محسوس کی جا سکتی ہے۔ڈائریکٹر مارٹن کیمبل نے ہر فریم کو بہادری اور استقامت کے مناظر سے بھر دیا جو ماضی کی فلموں میں دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔ ماضی کی فلموں میں یہ کردار خاصا کارٹون جیسا دکھائی دیتا ہے۔بانڈ فلموں سے بچپن سے لگاؤ رکھنے والے سکرپٹ ایڈیٹر اور سکرین رائٹر اینڈریو ایلارڈ کہتے ہیں کہ ‘پہلی بانڈ فلم جو 9/11 کے بعد ریلیز ہوئی وہ سنہ 2002 کی ڈائے اینیدر ڈے تھی۔ اس لمحے میں دنیا بہت غصے میں تھی اور بہت سارے وسوسوں کا شکار تھی اور جو ہوا تھا اس کی پیچیدگی کو سمجھنا چاہتی تھی۔’لیکن دنیا کو اس کی جگہ پیئرس بروسنن ملے اور اس فلم میں متعدد غائب ہونے والی گاڑیاں نظر آتی ہیں۔ ‘یہ (اس موقع کے حساب سے) ایک مکمل طور پر غلط انداز تھا۔’اس کے بعد اس حوالے سے تنقید ہونا شروع ہو گئی اور اس کے بعد بروسنن کو ہٹا دیا گیا اور ایک نئے اداکار کی تلاش شروع ہو گئی۔کسینو رویال میں آپ نے بانڈ کے کردار کے انداز میں تبدیلی دیکھی ہو گی، وہ خاصے ڈراؤنے لگ رہے تھے اور ان کی آنکھوں میں خالی پن کا احساس بھی صاف ظاہر تھا اور وہ اس تبدیلی کا نتیجہ تھا۔ یعنی اس کردار کو دہشت گردی اور دنیا کی سیاست میں مچے بھونچال کے حساب سے تبدیل کیا گیا تھا۔سیریز کو ظاہری طور پر بھی تبدیل کیا گیا تھا۔ ویرہیول کے مطابق ناقدین نے کیسینو رویال کا موازنہ کرسٹوفر نولن کی بیٹ مین فلموں اور بورن آئڈینٹٹی سے کیا ‘حالانکہ مذکورہ فلمیں اس سے کہیں زیادہ حقیقت کے قریب اور مقبول ہوئی تھیں۔’تاہم بانڈ کی ثقافتی اہمیت بہت زیادہ ہے اور ایلارڈ کے مطابق یہ ‘اس وقت کی ثقافت کے حساب سے خود کو تبدیل کر لے گی لیکن پھر بھی ایک بانڈ فلم ہی لگے گی۔‘’بروسنن کی پہلی فلم، گولڈن آئی میں متعدد سیاسی ورکرز کو مشین گن سے گولیاں مارتے دکھایا گیا تھا۔ یہ دراصل فلم ڈائے ہارڈ اور 80 کی دہائی کے آخر میں ایکشن فلموں کی مقبولیت کے باعث تھا۔ ہمیں ایک زمانے میں فلم میں سیاہ فام افراد کا استحصال ہوتا دکھائی دیتا ہے، اس میں ہمیں مارشل آرٹس اور کنگ فو بھی دکھائی دیتا ہے۔ راجر مور کی فلمیں اکثر تھنڈر برڈز جیسی ہو جایا کرتی تھیں۔’یقینی طور پر کسینو رویال کی تبدیلیاں یک طرفہ نہیں ہیں۔ ہر بار نیا بانڈ قتل کرنے کے لیے اپنے والتھر پی پی کے اور لائسنس اکھٹے کرتا ہے۔ یہ سیریز خود کو جمالیاتی، سیاسی اور دیگر حوالوں سے اپ ڈیٹ کرتی ہے۔ تو اس کا مستقبل کی سیریز کے لیے کیا مطلب ہے۔007 کی کہانی غلط معلومات، بریگزیٹ اور ماحول کو درپیش بحرانوں کے حوالے سے عکاسی کرنے کے لیے خود کو کیسے اپ ڈیٹ کرتی ہے۔اور مارول کے بعد کی دنیا جہاں فرینچائز سٹریمنگ سروس میں تقسیم کی جا رہی ہوں اور بانڈ کی سینما سے متعلق دنیا پر ایسے نظریں جمائے ہوئے ہیں جیسے کہ ریوالور کے بیرل پر نظر جمی ہوتی ہے۔
جدید اقدار کے مطابق:اداکارہ کہتی ہیں کہ ’دنیا آگے بڑھ گئی ہے۔۔ کمانڈر بانڈ، دنیا آگے بڑھ گئی ہے آپ اپنی لائن میں رہیں۔ یا پھر میں گولی آپ کی ٹانگ میں مار دوں گی۔‘اداکارہ لاشانا لینچ، نو ٹائم ٹو ڈائے کے ٹریلر میں نومی کا کردار نبھا رہی ہیں۔ یہ ایک سیاہ فام خاتون ہیں جو بانڈ کی جگہ پر 007 کا کردار ادا کر رہی ہیں۔بانڈ کے کئی دہائیوں کے رویے کے بعد جسے اب جنسیت پر مبنی کہا جاتا ہے یہ کریگ کے دور میں زیادہ بااختیار خواتین کرداروں کی طرف بتدریج بڑھنے کی اصلاح کا تسلسل ہے۔وہ ناقابل یقین حد تک پرکشش ہے اور ناقابل یقین حد تک خوش لباس ہے۔ وہ ہمیشہ زندہ بچ جاتا ہے اور وہ متعدد خواتین کے ساتھ رشتے استوار کرتا ہے۔ایلیرڈ کا کہنا ہے کہ اگر آپ سفید فام ہیں تو پھر اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے بانڈ کے پاس جانا آسان رہے گا۔فلیبیگ سٹار فوئبی والر بریج کی خدمات اس لیے لی گئیں تاکہ نو ٹائم ٹو ڈائے کا سکرپٹ بہتر کیا جا سکے۔ سیکریٹری کا کردار منی پینی (جو اب نومی ہیرس نے ادا کیا ہے) کے بطور فیلڈ آپریٹو ہے یہ بانڈ کے برابر ہے (دفتر سے منسلک چیز کے بجائے)، بانڈ خواتین کی بہتر نمائندگی کے لیے ایک راہ پر گامزن رہا ہے جو کہ آنے والے دنوں میں بھی جاری رہے گا۔ایلارڈ کے مطابق جنس پرستی میں یقینی بہتری آئی ہے لیکن اس سلسلے میں ابھی بہت سا سفر باقی ہے۔سکائی فال کا ایک منظر تھا جہاں بانڈ خواتین کے شاور میں گھس جاتے ہیں۔ مثلاً وہاں اجازت سے متعلق تمام قسم کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ آپ اس قسم کے مسائل کا حل کیسے نکالیں گے۔ کیا آپ نے لکھاریوں کی ٹیم میں خواتین کو شامل کیا تھا یا پھر کسی عورت نے اسے ڈائریکٹ کیا تھا۔فلم سازوں جیسے کہ ونڈر وومن کی پیٹی جینکنز، بلیک ویڈو کیٹ کی شارٹ لینڈ اور دی اولڈ گارڈز کی جینا پرنس بیتھ ووڈ منتظر ہیں اور ان کے پیچھے جانی مانی ایکشن فلمیں ہیں۔ بانڈ 26 میں ڈائریکٹر کی نشست پر آنے کے لیے یقیناً خواتین امیدواروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔جو بھی انچارج ہے شاید وہ اس سیریز کو ماضی کے زہریلے رویوں کے بجائے حالیہ خودشناسی کے نقطہ نظر کے ساتھ جاری رکھنے کا فیصلہ کرے۔ایلارڈ کا کہنا ہے کہ بانڈ میں سامراجیت اور زینو فوبیا پروان چڑھایا گیا اور ہر قسم کے ہم جنس پرست مخالف رویے کا ذکر نہیں کیا گیا۔آپ اس کے ساتھ کیسے چلتے ہیں اور آج کے جدید دور میں اس کے ساتھ کام کیسے کرتے ہیں یہ ایک مشکل سوال ہے ہر اس شخص کے لیے جو یہ فلمیں بنا رہا ہے۔ کیونکہ یہ کردار ایک خاص طرح کے استحقاق اور برتری کی نمائندگی کرتا ہے جو کہ 2021 میں باآسانی بیٹھتا نہیں۔کریگ کے دور میں سکرین رائٹرز نیال پروس اور رابرٹ ویڈ نے اس مسئلے کا ایک تخلیقی حل ڈھونڈا۔ ایسے کہ تناؤ کو سکرپٹ میں براہ راست شامل کریں اور پھر بانڈ کے طرز عمل سے اسے ڈرامائی انداز میں ڈھالیں۔ایلارڈ کی تجویز ہے کہ انتہائی دائیں بازو کا ابھرنا بانڈ کے کسی بھی ورڑن کے لیے پریشانی کا سبب ہو گا۔وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ برطانوی ہیروز کے بارے میں ایک قدامت پسندانہ اور کچھ حد تک دائیں بازو کی فرنچائز ہے جنھیں غیر ملکیوں پر اعتبار نہیں، ریت پر واضح لکیر ہے، وہ نازیوں کو پسند نہیں کرتے۔دائیں بازو کے عروج میں برطانیہ، امریکہ اور فرانس میں یہ خاصے پرجوش اور ثابت قدم ہیں اور انھیں نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔’ایسے لوگ موجود ہیں جو اتنے امیر ہیں کہ گلوبل وارمنگ کو ہونے سے روک سکتے ہیں۔ وہ اگر ایسا نہ کرنے کا انتخاب کریں تو یہ ایک ولن جیسا ہو گا اور اسے تلاش کرنا دلچسپ ہو گا۔‘ایک بات تو یقینی ہے کہ آپ ان ولنز کی خرابیوں کو بہت عرصے تک نہیں دیکھیں گے۔آپ نے لی شیفری (کیسینو رویال سے، میڈس میککلسن نے ادا کیا) کو دیکھا۔ آپ کو سلوا ملا سکائی فال میں جسے جیوائر بارڈمن نے ادا کیا جس کا چہرہ ہی تحلیل ہو گیا۔ اور اب ہمیں سافن ملا ہے (نو ٹائم ٹو ڈائی میں جسے ریمی ملک نے ادا کیا) ماسک اور چہرے کی ہئیت ہی تبدیل ہو گئی۔ایلارڈ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں ماضی کی وراثت کی مانند لگتی ہیں۔ بانڈ کی آخری فلم سپیکٹر کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ راستے میں بلوفیلڈ (یہ کردار کرسٹوف والٹز نے ادا کیا) کو بھی داغ لگانے میں کامیاب رہے۔‘آئین فلیمنگ کی کتابوں میں یہ ایسے شروع ہوتا ہے کہ بانڈ کے چہرے پر داغ تھا۔ مصنف کیسینو رویال کے ناول میں بانڈ کے بارے میں وضاحت سے لکھتے ہیں، سیاہ، صاف چہرہ، دائیں گال پر تین انچ لمبا نشان۔مہم چلانے والوں کی جانب سے اس تنقید کے بعد یہ الزام لگائے گئے کہ ولن میں خرابیاں دکھانا منفی دقیانوسی تصورات کو تقویت دیتا ہے۔ یہ کہا گیا کہ یہ حقیقی زندگی میں ایسے افراد کی زندگی کو مشکل بنا دیتا ہے۔آئندہ بانڈ آؤٹنگ میں ٹائٹلر ہیرو کے دائیں گال پر داغ لگانا خوش آئند ہو گا۔ جیسا کہ فلیمنگ نے اصل میں تصور کیا تھا۔
بانڈ کا سینمیٹک یونیورس:بانڈ کے مداحوں کے لیے ایک اور سوال یہ ہے کہ 007 کے لیے ایمیزون کی فرنچائز کی نئی حصہ داری کا کیا مطلب ہو گا۔کارپوریشن کے پاس صارفین کو راغب کرنے کے لیے ایک سٹریمنگ سروس ہے۔ بانڈ فرنچائز کی وسعت کہانیوں، مختلف فلموں، ٹی وی شوز، ویڈیو گیمز اور دیگر تک پھیلی ہوئی ہے۔مارول نے مارول سنیماٹک کائنات کے ساتھ رجحان کا آغاز کیا۔بعد میں سٹار وارز نے اس کی تقلید کی جس میں ڈزنی، شو دی مینڈورین کی کامیابی کے بعد اس سال کے آخر میں ڈیبیو شروع کرنے کے لیے ایک دوسرے سے جڑے عنوانات شامل تھے۔ڈی سی نے اس کی کوشش کی اس کے علاوہ دیگر فرنچائز بھی اسی کوشش میں ہیں۔کیا جیف بیزوس نئے بانڈ سے متعلقہ مواد کی دولت پیدا کر کے 007 کی کمائی کی صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ویرہیول کا کہنا ہے کہ کامک میں ایک لاطینی امریکی بانڈ ہے جو بہت کامیاب رہا ہے۔ بانڈ کے ناول اسی انداز میں لکھے جاتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ میں یقینی طور پر اسے دیکھنے کے لیے بہت متجسس ہوں۔ اس بارے میں تصور کرنا کہ منی پینی کا سپن آف ہو گا بہت دلچسپ ہے جہاں بدلی ہوئی دنیا میں روایتی ہیرو ایک ہیروئن ہو گی جو سیاہ فام ہے۔ میرا خیال ہے اس کے لیے ایک مارکیٹ موجود ہے۔ایلارڈ کے مطابق سپن آف برسوں پہلے ہوا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ فلم ڈائے اینیدر ڈے کے کردار ہیل بیری کو اس میں شامل کیا گیا تھا اور سکرپٹ بھی لکھا گیا تھا لیکن پھر وہ کبھی ہو نہیں سکا تھا۔آخر کار انھیں یہ معلوم ہوا کہ بانڈ کی فلموں میں کمی اس کی نفاست کی اہم وجہ ہے۔ آپ بظاہر اتنی اعلیٰ حد تک نہیں جا سکتے اگر آپ ہر وقت بہت سی چیزیں بنا رہے ہوں تو۔مجھے ایم سی یو سے محبت ہے لیکن آپ ایک حرکت کرتے کنویئر بیلٹ کو دیکھ سکتے ہیں۔ بانڈ نے خود کو ایک غیر معمولی نگینے کی مانند رکھا ہے۔ اسے آپ کچھ سالوں بعد دیکھتے ہیں۔ اگر چار بانڈ ہوتے اور ان سے متعلقہ چیزیں ہر سال سامنے آتیں مارول کی سینمیٹک یونیورس کی طرح تو پھر بانڈ کا مضبوط ہونا غیر معمولی ہوتا۔جو بھی ہوا جس نے بھی ڈینئیل کریگ کے جانے کے بعد اہم کردار ایسٹن مارٹن نے ادا کیا، 007 کے بارے میں کچھ چیزیں ہیں جو کہ کبھی بھی نہیں بدلیں گی۔ویر ہیول کا کہنا ہے کہ بانڈ کی ثقافتی سیاست کے بارے میں بہت اضطراب ہے۔ انھوں نے کہا کہ اکثر اخبارات میں یہ لکھا جا رہا ہے کہ بانڈ اپنی نئی فلم میں ترقی پسند نظریات کے حامل ہوں گے۔ (یہ رپورٹس آنے کے بعد کہ بانڈ الیکٹرک ایسٹن مارٹن چلائیں گے برطانوی اخبار ڈیلی میل نے 2019 میں لکھا دی ووکیسٹ بانڈ ایور، یعنی اب تک کا سب سے زیادہ ترقی پسند بانڈ۔)بانڈ فلم بنانے کا ایک خاص فارمولا ہوتا ہے، گیجیٹس کا استعمال، بین الاقوامی سفر کا گلیمر، کچھ قسم کا رومانس اور شوٹنگ کے لیے بڑے سیٹ جن میں گرین سکرین استعمال نہیں ہوتی۔وہ کہتے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ یہ اہم ہے کہ برطانوی پن کو کیسے بیان کیا گیا ہے اچھا یا برا۔ تو جب تک یہ اس کے ساتھ ہے اور بالآخر یہی ہے جو بانڈ فلم بناتا ہے۔جیمز بانڈ اب پھر سے پیدا ہو رہا ہے، اور ڈینیئل کریگ کے دور کو زندہ کرنے کے بعد یہ امکانات نہ ختم ہونے والے محسوس ہوتے ہیں۔

Related Articles