ایران میں خواتین فٹ بالروں کے لیے تیار کردہ نئے یونیفارم پر تنازع

تہران،ستمبر۔مذہبی شدت پسندوں اور عام م مسلمانوں کے طرز زندگی اور لباس کیباوقار ہونے اور اخلاقیات کے اپنے اپنے معیار ہیں۔اگرہم ایرانی خواتین کھلاڑیوں کے نئے یونیفارم کو پہلی نظرمیں دیکھیں تو ہم ان کو معمولی سمجھیں گے اور ہمیں یہ باوقار لگے گا۔ تاہم ان کپڑوں نے ملک میں زبردست ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ ایرانی عہدیدار اس طرح کیلباس کو بہ طور یونیفام اختیار کرنے پرایک دوسرے کومورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ایرانی عہدیداروں کا کہنا ہیکہ بین الاقوامی فٹ بال میچوں کے دوران ایرانی خواتین کھلاڑیوں کو یہ یونیفارم نہیں پہننا چاہییکیونکہ یہ ان کے بہ قول’مہذب‘ نہیں۔اصل مسئلہ ایرانی خواتین کھلاڑیوں کے یونیفام میں پتلون کے ساتھ جیکٹ کے استعمال کا ہے۔ اسی پر ایرانی حلقوں میں بحث چل رہی ہے۔ایرانی وزارتِ کھیل نے نئے یونیفارم کے استعمال کی اجازت دینے کے معاملے سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ ایرانی معاون وزیربرائے کھیل مھین فرہادی زاد نے کہا کہ ہم نے خواتین فٹ بالروں کو یہ نیا لباس پہننے کو نہیں کہا ہے بلکہ اصول کے مطابق خواتین کھلاڑیوں کا سرکاری لباس گردن تک کوٹ(مانٹو)، پتلون اور ’ہیڈ ٹائی‘ پر مشتمل ہے۔خواتین کھلاڑیوں کے لیے قومی یونیفارم پاؤں سے سر تک جسم کو مکمل ڈھاپنے والا ہے۔اتوار کو فارس نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے فرہادی زاد نے مزید کہا "فٹ بال ایسوسی ایشن‘‘ کے نائب صدر نے اپنی ذاتی پریشانیوں کی وجہ سے اپنی ذمہ داری کسی دوسرے محکمے کو سونپ دی ہوگی جس کی وجہ سے یہ معاملہ کھڑا ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ خواتین فٹ بال کھلاڑیوں کے لباس کے بارے میں "ضروری انتباہ” دیا گیا تھا۔ایرانی ویمن فٹ بال ٹیم جو دو سال میچوں سے غیر حاضری کے بعد عالمی ٹیموں سے باہرہو گئی تھی اس سال فیفا رینکنگ میں واپس آئی ہے۔ ایرانی فٹ بال ٹیم 15 ستمبر کو جمہوریہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں ایشین کوالیفائر میچوں میں شرکت کے لیے تاشنقد پہنچی۔میچ سے قبل سامنے آنے والی تصاویر میں ایرانی خواتین کھلاڑیوں کو گہرے رنگ کے خواتین کے سوٹ پہنے ہوئے دکھایا گیا۔ ان کییونیفارم میں ہیڈ بینڈ ، جیکٹ اور پتلون شامل ہیں۔گذشتہ ہفتے سپاہ پاسداران انقلاب کی "فارس” نیوز ایجنسی نے کھلاڑیوں کے یونیفارم کو "مردانہ” اور معاشرے کے رسم و رواج کو نظر انداز کرنے کے مترادف قرار دیا تھا۔فارس نیوز ایجنسی کے مطابق خواتین فٹ بالروں کے لیے تیار کردہ یونیفارم’غیر مسبوق‘ ہے۔ اس لباس کو فوری طورپر درست کرنے اور متعلقہ اداروں کی طرف سے اس کی تحقیقات پر زور دیا گیا۔ایرانی پارلیمنٹ کی جسمانی فٹس کمیٹی کے چیئرمین احمد راستینہ نے کہا کہ ہماری خواتین فٹ بال ٹیم کے لیے جو یونیفارم تیار کیا گیا ہے اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس یونیفارم پر فٹ بال فیڈریشن کا محاسبہ ہونا چاہیے۔سوشل میڈیا پر بھی ایرانی خواتین کھلاڑیوں کے یونیفارم پربحث چل رہی ہے۔ کچھ لوگ نئی وردی کو ’باوقار‘ قرار دیتے ہیں جب کہ بعض دوسرے انہیں ’ایرانی طالبان‘ کہہ کرمذاق اڑاتے ہیں۔

Related Articles