کلکتہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس راج شیکھر منتھا کے کمرہ عدالت کے باہر احتجاج

وکلا کی رائے منقسم بار ایسوسی ایشن کے چند ممبران حمایت میں سامنے آئے

کلکتہ ،جنوری ۔وکلاء کے ایک گروپ کےذریعہ جسٹس راج شیکھر منتھا کے کمرہ عدالت کے باہر احتجاج اور ان کو داخل ہونے سے روکے جانے کے ایک دن بعدریاستی بار ایسوسی ایشن کے کئی ممبران نے کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر مظاہرین کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں خاموشی ایک بڑی ناانصافی ہوگی ۔اس کے ساتھ ہی ان ممبران نے ہائی کورٹ کے جج جسٹس راج شیکھر منتھا کو بعض مقدمات کی سماعت سے ہٹانے کی درخواست بھی کی ہے۔ دوسری جانب بار ایسوسی ایشن نے اس معاملے میں میٹنگ کرنے یا قراردادلانے سے سے انکار کیا ہے ۔علاوہ ازیں کلکتہ ہائی کورٹ کے سینئر وکلاء نے کمرہ عدالت کے باہر احتجاج اور جج کو جانے سے روکنے کے وکلاء کی کارروائی کی مذمت کی ہے۔خیال رہے کہ جسٹس منتھا اپوزیشن لیڈر شوبھندو ادھیکاری کو گرفتاری سے بچانے کےلئے مکمل تحفظ فراہم کرنے کی وجہ سے سرخیوں میں رہے ہیں ۔کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے نام خط میں کہا گیا ہے کہ جسٹس راج شیکھر منتھا کے اقدامات پر ’’بات چیت ہونی چاہیے‘‘ کیوں کہ انہوں نے معیار کے برخلاف فیصلے سنائے ہیں ۔ وکلاء کا دعویٰ ہے کہ جج نے آڈی الٹر م کے اصول کی خلاف ورزی کی ہے،جس میں سارے فریق کو سننا لازمی ہے۔جسٹس منتھا کے حکم پر اعتراض کرتے ہوئے وکلاء نے کل ان کی عدالت کے باہر احتجاج بھی کیا تھا۔ انہوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس میں اس کے ساتھ اپنا مسئلہ بیان کیا گیا تھا۔جسٹس منتھا کے گھر اور کلکتہ ہائی کورٹ کے باہر لگے پوسٹروں نے مسٹر ادھیکاری کے بارے میں ان کے فیصلے کو ’’عدلیہ کی بے عزتی‘‘قرار دیا۔ ایک پوسٹر میں لکھا ہے کہ ایک طرف شوبھندو ادھیکاری کو مکمل تحفظ فراہم کیا جارہا ہے تو دوسری طرف ترنمول کانگریس کے جنرل سیکریٹری ابھیشیک بنرجی کی اہلیہ کی بہن کی گرفتاری پر روک کو ختم کیا گگیا ہے ۔یہ معاملہ کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے آج اس وقت آیا جب سی پی آئی (ایم) کے سینئر لیڈر اور سینئر ایڈوکیٹ بکاش رنجن بھٹاچاریہ نے اس اقدام کی مذمت کی۔ ڈپٹی سالیسٹر جنرل بلوادل بھٹاچاریہ نے عدالت کے احاطے میں مرکزی سیکورٹی کا مطالبہ کیا۔ایڈوکیٹ بکاش رنجن بھٹاچاریہ نے کہا کہ جج کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ان کے گھر اور کمرہ عدالت کے باہر توہین آمیز پوسٹر لگائے گئے ہیں ۔ انہوں نے بینچ سے سخت نوٹس لینے کی اپیل کی اور توہین عدالت کی مجرمانہ کارروائی کی درخواست کی۔کچھ وکلاء کے ایک خط پر جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بار ایسوسی ایشن نے جسٹس منتھا کی عدالت سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔، ایڈوکیٹ سپتن گو باسو نے عدالت سے کہا کہ وہ اسے نظر انداز کر دے کیونکہ بار کی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی قرارداد لائی گئی ہے۔اس لئے اس کی اہمیت نہیں ہونی چاہیے۔چیف جسٹس نے پیر کو ایڈوکیٹ جنرل اور کلکتہ ہائی کورٹ کی بار ایسوسی ایشن کے صدر کو اس معاملے میں طلب کیا تھا۔ چیف جسٹس نے اے جی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو پریشانی ہوگی۔ جج کے بنچ کا بائیکاٹ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس کے پاس خط جمع کرتے ہوئے ایڈوکیٹ اچنتیا بنرجی نے کہا کہ گزشتہ ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے سے، ان وکلاء کے ذریعہ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ انہیں انصاف نہیں مل رہا ہے، مناسب طریقے سے سنا نہیں جا رہا ہے، مناسب طریقے سے برتاؤ نہیں کیا جا رہا ہے۔انہوں نے مناسب فارم پر آکر اپنی بات رکھی بھی ہے۔ان وکلا کا بھی عزت نفس ہے۔انہوںنے پہلے اس معاملے کو بار ایسوسی ایشن کے سامنے رکھا اور بار ایسوسی ایشن نے چیف جسٹس کے سامنے رکھا تھا۔بی جے پی رکن ایڈوکیٹ ترونجیوتی تیواری نے احتجاج کا ایک ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے جس میں مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرائی ہے۔اپوزیشن جماعتوں نے بھی عدالت کے باہر وکلاء کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی شکایات کے اندراج کے لیے ایک مناسب فورم موجود ہے۔کانگریس لیڈر اور ایڈوکیٹ رتزو گھوشال نے کہا کہ یہ صورت بدقسمتی پر مبنی سے، اس ادارے کی عظمت کا مذاق اڑایا گیا ہے اور اسے کم کیا گیا ہے۔ اگر آپ کسی خاص جج کے کسی خاص حکم سے ناراض ہیں، تواس کے خلاف اپیل کرنے کا فارم موجود ہے۔ہم کسی جج کے فیصلے کے خلاف اپیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’جج نے اس نتیجے پر پہنچنے میں غلطی کی ہےیا جج نے اس معاملے کی تعریف کرنے میں ناکام رہے، ہم یہ سب لکھتے ہیں۔ شکایات کو دور کرنے کا ایک فورم ہے۔ بدقسمتی سے، انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نامناسب ہے اور یہ اس عظیم ادارے کی ثقافت کبھی نہیں تھی۔

Related Articles