دفعہ 370 کی واپسی پر لوگوں کو گمراہ نہیں کروں گا
گمراہ کن نعروں سے ہی کشمیر میں ایک لاکھ لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں : غلام نبی آزاد
سری نگر، ستمبر۔کانگریس کے سابق لیڈر غلام نبی آزاد نے اتوار کے روز کہا کہ پارلیمنٹ میں دفعہ 370 کی واپسی کے لئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے لہذا اس حوالے سے میں لوگوں کو گمراہ نہیں کروں گا کیونکہ گمراہ کن نعروں سے ہی کشمیر میں ایک لاکھ لوگوں کی جانیں گئیں، چار سے پانچ لاکھ بچے یتیم ہوئے اور پچاس ہزار بیوائیاں بنیں ۔انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 کی منسوخی پر چار گھنٹے تک راجیہ سبھا میں بحث کیا جو دنیا کے دو سو ممالک میں دیکھا گیا ہے۔اُن کے مطابق جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ غلام نبی آزاد نے دفعہ 370 کے حق میں ووٹ دیا وہ پارلیمانی اصولوں سے پرے ہیں ۔ لہذا جن لوگوں کو پارلیمنٹ کی علمیت ہی نہیں اُنہیں اس پر بیان دینا سے گریز کرنا چاہئے۔ان باتوں کا اظہار موصوف نے بارہ مولہ میں عوامی جلسے سے خطاب کے دوران کیا۔انہوں نے کہاکہ مجھے دنیا کی کوئی طاقت خرید نہیں سکتی کیونکہ میں غلام نبی ﷺ ہوں ۔غلام نبی آزاد نے کہاکہ یہاں کے کچھ سیاستدان جو یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ آزاد صاحب نے 370 پر بیان نہیں دیا وہ دراصل پارلیمانی اصولوں سے نابلد ہے۔اُن کے مطابق بطور حزب اختلاف کے لیڈر مسلسل چارگھنٹے تک دفعہ 370کی منسوخی پر اپنا موقف سامنے رکھا جو دنیا کے دو سو ممالک میں دیکھا گیا ہے۔انہوں نے الطاف بخاری کا نام لئے بغیر کہا کہ جو لوگ ایسا کہہ رہے ہیں دراصل اُنہیں پارلیمانی اصولوں کی کوئی علمیت ہی نہیں ۔انہوں نے کہاکہ اللہ سے کہتا ہوں کہ ایسے سیاستدان دس بیس سال تک پارلیمنٹ میں رہیں وہ سمجھیں گے کہ ووٹ کس کے خلاف اور کس کے حق میں دینا ہے۔غلام نبی آزاد نے ایسے سیاستدانوں کو مشورہ دیا کہ وہ پہلے سیکھیں کہ پارلیمنٹ میں ووٹ دینے کا کیا مطلب دفعہ 370 کی واپسی کو لے کر دئے جانے والے بیانات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے غلام نبی آزاد نے کہاکہ میں اُن سیاستدانوں میں نہیں جو لوگوں کو اس قانون کے متعلق گمراہ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ اللہ کو حاضر رکھ کر کہتاہوں کہ غلام نبی آزاد کشمیریوں کو گمراہ نہیں کرئے گا بلکہ حق اور صداقت کی بات سامنے رکھوں گا۔مسٹر آزاد نے کہاکہ پچھلے 32سال کے گمراہ کن نعروں سے ہی ایک لاکھ لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں، چار سے پانچ لاکھ بچے یتیم ہوئے اور پچاس ہزار بیوائیاں بنیں ۔غلام نبی آزاد نے کہاکہ دفعہ 370 کو بحال کرنے کی خاطر سب سے پہلے راجیہ سبھا میں دو تہائی اکثریت ہونی چاہئے جو آج کسی بھی اپوزیشن پارٹی کے پاس نہیں لہذا اس قانون کی واپسی کے متعلق جو کچھ کہا جارہا ہے وہ گمراہ کن ہے۔اُن کے مطابق جس پارٹی کو میں نے چھوڑا وہ پچھلے دس سالوں سے لوک سبھا میں پچاس کے اوپر بھی نہیں چلی گئی ۔انہوں نے کہاکہ کشمیر کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہزاروں سالوں سے یہاں پر بہت سارے حکمران حملہ آور ہوئے اور یہاں لوٹ کر چلے گئے ۔اُن کے مطابق آزادی کے بعد کشمیر اندرونی سیاست کا شکار ہوا ، 53 میں شیخ صاحب کی گرفتاری، 65 اور 71 کی لڑائی اور پھر ملی ٹینسی کا ایسا دور آیا جو پچھلے تیس سالوں سے تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا یہاں پر اصلی انکاونٹر بھی ہوئے اور کھبی کھبار نقلی تصادم آرائیوں کے دوران عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔اُن کے مطابق جب ریاست کا وزیرا علیٰ بنا تو جعلی تصادم آرائیوں کی تحقیقات کرنے کے احکامات صادر کئے جس دوران ملوثین کو سزا دلائی۔