بجلی بحران کے تدارک میں حکام کی عدم توجہی قابل تشویش: حسنین مسعودی
سری نگر،اپریل۔ جموں وکشمیرمیں بجلی کے بحران اور پینے کے صاف پانی کی ہاہاکار کے علاوہ کسانوں کو آبپاشی میں پیش آرہی مشکلات مرکز اور مقامی حکومت کے جموں وکشمیر میں نارمیلسی، خوشحالی اور تعمیرو ترقی کے تمام دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔یہاں عوام کو اس وقت جن گوناگوں مشکلات کا سامنا ہے اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ جموں وکشمیر سے متعلق کئے جارہے تمام حکومتی دعوؤں کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ان باتوں کااظہار نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان برائے جنوبی کشمیر جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے پیر کے روز ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر اس وقت بجلی کا جو بحران ہے ایسا گذشتہ 3سے 4دہائیوں میں نہیں دیکھا گیا ہے۔ شمال و جنوب میں بجلی کا بحران ہے اور متعلقہ حکام اس سنگین صورتحال سے لاتعلق نظر آرہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب بھی بجلی کی سپلائی کو لیکر کوئی مسئلہ اُجاگر کیاجاتا تھا اس پرمتعلقہ حکام فوراً نوٹس لیکر اس کا تدارک کرتے تھے لیکن آج ایسا بالکل نہیں، متعلقہ حکام نے بجلی کے بحران سے مکمل لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے۔مسعودی نے کہاکہ باہری ریاستوں میں ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں مل رہاہے بلکہ بہت ساری ریاستوں میں صارفین کے بقایا جات معاف کئے جارہے ہیں اور 300 سے400 یونٹ بجلی مفت فراہم کی جارہی ہے لیکن یہاں کا نظام اس کے عین برعکس ہیں۔یہاں صارفین کو زبردستی نئے اگریمنٹ کرائے جارہے ہیں اور بقایاجات سود سمیت وصولے جارے ہیں اور بجلی فیس میں بھی اضافہ کیا جارہاہے ،اس کے باوجود بھی بجلی کہیں نہیں ہے۔ محکمہ کو کم از کم ماہ مقدس کے دوران سحری ، افطار اور تراویح کے وقت بجلی کی سپلائی یقینی بنانے کیلئے پہلے ہی اقدامات اٹھانے چاہئے تھے۔حسنین مسعودی نے کہاکہ بجلی کے بحران کا اثر اب براہ راست آبپاشی پر بھی پڑا ہے اور کسانوں کو صرف2 گھنٹے کیلئے پانی کی فراہمی کی جارہی ہے ، اور یہ محدود سپلائی زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے بہت کم پڑرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں مشکلات میں مزید اضافہ ہونے کا قوی اندیشہ ہے ، جس سے یہاں کی زراعت پر بہت برا اثر پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس بحران کی طرف بروقت توجہ مرکوز نہیں کی گئی تو آنے والے ایام میں یہاں کے زرعی شعبے کو زبرشت چیلنج کا سامناہوگا۔