سرحدی بستی اوڑی میں سیز فائر کے بعد پہلی بار کھلے اسکول
سری نگر،مارچ۔وادی کشمیر میں بدھ کے روز طویل موت کے بعد تعلیمی ادارے کھلنے کے ساتھ جہاں طلبا والدین خوش تھے وہیں سرحدی بستیوں کے طلبا و والدین کے چہروں پر خوشی کے ساتھ ساتھ تحفظ و سکون کے آثار بھی نمایاں تھے کیونکہ ان کے علاقوں میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عمل در آمد پر اتفاق کے بعد پہلی بار اسکول کھل رہے تھے ۔بتادیں کہ سال گذشتہ کی 24 اور 25 فروری کی درمیانی شب ہندوستان اور پاکستان نے ڈی جی ایم او سطح کی ایک میٹںگ کے دوران لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ اس سے متصل سبھی سیکٹروں میں جنگ بندی اور دیگر سمجھوتوں پر عمل کرنے پر اتفاق ظاہر کیا تھا۔اس معاہدے کا گذشتہ دنوں ایک سال مکمل ہوا اور اس ایک برس کے دوران سرحدی بستیوں میں امن و سکون کا ماحول چھایا رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنا کام کاج بغیر کسی خوف و ڈر کے انجام دے سکے ۔سیز فائر کے بعد اسکول پہلی بار کھلنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے گورنمنٹ بائز ہائیر سیکنڈری اسکول اوڑی کے پرنسپل مشتاق سوپوری نے کہا کہ ہمارے لئے سب سے زیادہ خوشی کی بات ہے کیونکہ یہاں سیز فائر کے بعد پہلی بار اسکول کھل رہے ہیں۔انہوں نے کہا: ‘جہاں تک اوڑی کی بات ہے تو یہاں بچے ، والدین اور اساتذہ زیادہ ہی خوش ہیں کیونکہ سیز فائر کے بعد پہلی بار بچے بغیر کسی ڈر کے اسکول آئے ہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بچوں، والدین اور اساتذہ میں کافی خوف رہتا تھا کیونکہ کسی بھی گولہ باری ہوجاتی تھی جس سے مالی و جانی نقصان ہوجاتا تھا۔موصوف پرنسپل نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ جو یہاں آج امن و شانتی کا ماحول چھایا ہوا ہے وہ ہمیشہ چھایا رہے ۔قابل ذکر ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان گولہ باری کے تبادلے کے نتیجے میں نہ صرف آر پار کی سرحدی بستیوں میں زندگی کے تمام شعبے ماتثر ہو کر رہ جاتے تھے وہیں شعبہ تعلیم سب سے زیادہ متاثر رہتا تھا۔