کانگریس اور بی جےپی کے درمیان نظریات کی جنگ ہے:راہل

امپھال، فروری۔کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے پیر کو کہا کہ ایک طرف ان کی پارٹی ایک ایسا ملک چاہتی ہے جو لوگوں کو مختلف زبانوں، ثقافتوں اور روایات کی پیروی کرنے کی اجازت دینے پر یقین رکھتا ہو اور دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)ایک نظریے، ایک فکر اور ایک زبان کی برتری کو تسلیم کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کانگریس اور بی جے پی کی لڑائی ہے۔مسٹر گاندھی نے یہاں ہپتا کانگجی بنگ میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے کارکنان بشمول وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے کئی لیڈروں نے منی پور میں ‘احساس برتری’ لے کر آئے ہیں اور انہیں اس کی ثقافت، تہذیب، روایات پر فخر ہے اور وہ یہاں کے جمہوری اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔مسٹر گاندھی نے کہا، ’’ہم ایک ایسے ہندوستان میں یقین رکھتے ہیں جہاں ہر ریاست کو مساوی حقوق حاصل ہیں اور انہیں اپنی زبان، تہذیب اور ثقافت کی پیروی کرنے کی بھی اجازت ہے۔ اس کے برعکس ہم بی جے پی کے نظریے کے خلاف ہیں۔ ان کا نظریہ ایک زبان اور ثقافت کو اپنانا ہے جو کہ تمام زبانوں اور ثقافتوں سے بالاتر ہو۔ آج ہندوستان میں ان دو نظریات کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ مسٹر گاندھی نے کہا کہ ابھی کچھ دنوں پہلے پارلیمنٹ میں ہندوستان کی حالت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے ملک کا ذکر ریاستوں کے ایک یونین کے طورپر کیا جیسا کہ آئین میں کہا گیا ہے۔کانگریس لیڈر نے کہا،’’بی جےپی اور آر ایس ایس نے میرے بیان پر ردعمل دیا تھا۔انہیں میرا ہندوستان کو ریاستوں کا یونین کہنا پسند نہیں آیا۔‘‘مسٹر گاندھی نے کہا کہ مسٹر مودی اور بی جےپی کے دیگر رہنماؤں کو شمال مشرقی ریاست کے لوگوں کےلئے کوئی احترام نہیں ہے۔مسٹر گاندھی نے کہا کہ منی پور کی مختلف ذاتوں،اقتدار ،اس کی تاریخ ،ثقافت ،زبان ،خواتین کے تئیں برتاؤجیسا سیکھنے کےلئے بہت کچھ ہے۔اس دوران مسٹر گاندھی نے یقین دلایا کہ اگر کانگریس ریاست میں اقتدار میں آتی ہے تو وہ یہاں کی وراثتوں کی حفاظت کرے گی۔مسٹر گاندھی نے کہا کہ وزیراعظم 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مسٹر مودی نے ہر شخص کے کھاتے میں 15 لاکھ روپے جمع کرانے کا وعدہ کیا تھا اور اس بات کی ضمانت دی تھی کہ ہر سال دو کروڑ نوکریاں پیدا ہوں گی اور کسانوں کی آمدنی 2022 تک دوگنی ہو جائے گی۔مسٹر گاندھی نے سوال کیا کہ مسٹر مودی اب کسانوں کی آمدنی، نوٹ بندی، ناقص جی ایس ٹی، بے روزگاری کے مسئلہ اور تین کسان مخالف قوانین کے بارے میں کیوں نہیں بول رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی اور دیگر ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معیشت کووڈ وبائی مرض کے دوران سکڑ گئی۔ بے روزگاری کا بھی بڑا مسئلہ تھا اور تمام چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں تباہ ہو گئیں۔اپنی 25 منٹ کی تقریر کے دوران، مسٹر گاندھی نے کہا، ’’مودی پام آئل کے باغات لگا کر شمال مشرقی خطے کے مستقبل کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘کانگریس کو منی پور کے لوگوں کو تکلیف دے کر چند افراد کے فائدے کو یقینی بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مسٹر گاندھی نے کہا، ’’ہم باغبانی کی مصنوعات کے لیے ایم ایس پی فراہم کرنے اور زراعت کے شعبے میں خود انحصاری کے لیے اسکیمیں شروع کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اس کے علاوہ کانگریس سال میں دو سے تین فصلیں متعارف کرانے کے لیے آبپاشی کی سہولیات کو بھی بہتر بنائے گی۔‘‘انہوں نے بی جے پی پر کانگریس کے ذریعہ بنائے گئے انفراسٹرکچر کو "کمزور” کرنے کا بھی الزام لگایا۔کانگریس لیڈر نے کہا کہ حکومت نے ان کا مذاق اڑایاتھا جب انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ کورونا ملک کو برباد کر دے گا، اس لیے وقت پر تیاری کریں۔مسٹر گاندھی نے کہا، ’’اس کے بدلے میں، وزیر اعظم نے لوگوں سے تھالی بجانے کو کہا۔ جب اس سے کام نہیں ہوا، تو اسپتالوں میں آکسیجن فراہم کرنے یا سہولیات کو بڑھانے کے بجائے، مسٹر مودی نے لوگوں سے موبائل فون کی لائٹس آن کرنے کو کہا۔ وینٹی لیٹرز، آکسیجن اور ویکسینیشن مہم کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہزاروں اموات ہوئیں۔‘‘مسٹر گاندھی کی منی پور آمد پر یہاں کے سابق وزیراعلی او ایبوبی سنگھ نے کہا کہ ’فرقہ وارانہ‘ بی جے پی حکومت کو ہرانے کا وقت اب آگیا ہے۔

Related Articles