اہلیت کو سماجی طور پر ہم آنگ بنایا جانا چاہیے: سپریم کورٹ
نئی دہلی، جنوری ۔ سپریم کورٹ نے قومی اہلیت -کم – داخلہ ٹیسٹ-پی جی (نیٹ-پی جی) ریزرویشن معاملے میں جمعرات کو کہا کہ امتحانات ان سماجی-اقتصادی فائدے کو نہیں ظاہرکرتے ہیں جو بعض طبقوں کو ملے ہیں لہذا اہلیت کو سماجی طور پرہم آہنگ کیا جانا چاہیے۔جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے میڈیکل کورسز میں پوسٹ گریجویٹ کلاسز میں داخلہ سے متعلق قومی اہلیت-کم-داخلہ ٹیسٹ-2021-22 (نیٹ-پی جی) معاملے کیی کاؤنسلنگ اور اندراج کے عمل کو آگے بڑھانے کی اجازت دینے کے سلسلے میںتفصیلی حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ریزرویشن، اہلیت کے برعکس نہیں ہے۔بین نے گذشتہ سات جنوری کو اپنے عبوری حکم کے نتاظر میں مفصل سبب بتاتے ہوئے کہا کہ کورونا کے اس دور میں ہمیں ڈاکٹروں کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے میں کسی بھی عدالتی مداخلت سے امسال داخلے کے عمل میں دیری ہوتی، اہلیت کی قابلیت میں کوئی تبدیلی اور دونوں فریق کی جانب سے مقدمہ بازی آگے بڑھنے سے اندارج میں تاخیر ہوتی۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ یہ دلیل نہیں دی جا سکتی ہےکہ امتحانات کی تاریخیں طے کی گئیں تو عین وقت پر ضوابط میں تبدیلی کی گئی۔ عدالت نےکہا کہ آل انڈیا کوٹہ (اے آئی کیو) سیٹوں میں ریزرویشن دینے سےپہلے مرکز کو اس عدالت کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی اور اس طرح ان کا فیصلہ درست تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ آئینی توضیح کے شامل ہونے کے معاملوں میں عدالتی تُک ہمیں کوٹہ پر روک لگانے کی اجازت نہیں دے گا، بالخصوص جب معاملہ زیر التواء ہو۔بینچ نے اقتصادی طور پر کمزور طبقے (ای ڈبلیو ایس) کے کوٹے کے سلسلے میں کہا،’ہم نے کہا ہے کہ درخواست گذاروں کے دلائل صرف اے آئی کیو میں حصہ داری تک محدود نہیں تھے بلکہ معیار (خاندان کی سالانہ آمدنی آٹھ لاکھ روپے تک)بھی تھی اس لیے اس معاملے میں تفصیل سے شنوائی کی ضرورت ہے۔ عدالت اس معاملے میں مارچ کے تیسرے ہفتے میں غور کرے گی۔نیل اوریلیو نونس کی قیادت میں عرضی گذاروں کے ایک گروپ نے میڈیکل کورسز کی پوسٹ گریجویٹ کلاسز میں آل انڈیا کوٹہ میں دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے لیے 27 فیصد اورای ڈبلیو ایس کے لیے 10 فیصد ریزرویشن کے نفاذ سے متعلق مرکز کے 29 جولائی کے نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا ہے۔عدالت نے 7 جنوری کو 27 فیصد او بی سی کوٹہ کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھا تھا، لیکن کہا کہ ای ڈبلیو ایس امیدواروں کے لیے متعینہ سالانہ 8 لاکھ روپے کی آمدنی کا معیار زیر التواء عرضیوں کے حتمی نتیجے کے تحت ہوگا۔