جموں وکشمیر میں حد بندی کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کر نے کی ضرورت: پروفیسر سوز
سری نگر، دسمبر ۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر پروفیسر سیف الدین سوز کا کہنا ہے کہ”میں نے جموں وکشمیر میں حد بندی کمیشن کے معاملے پر نہایت ہی سنجیدگی سے غور کر کے یہ محسوس کیا ہے کہ اس معاملے پر ایک مضبوط عوامی تحریک کی ضرورت ہے!انہوں نے کہا کہ میری نظر میں اس معاملے پر سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر کے انصاف کا متوقع ہونا فائدہ مند نہیں ہو سکتا ۔ یہ امر اور بھی دشوار ہے کیونکہ آئین ہند کی حد بندی کمیشن سے متعلق دفعات اس عمل میں کافی رکاوٹ ڈال سکتی ہیں۔تاہم جموں وکشمیر مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کا عدالت میں جانا بھی خلاف مصلحت نہیں! عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی وقت کی ضرورت ہے!مگر دوسری طرف کچھ دانشور اور دردمند لوگ یہ رائے دے رہے ہیں کہ ایک مضبوط عوامی تحریک ہی تمام مشکلات کا علاج ہے!انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ دراصل ایک سیاسی مسئلہ ہے او ریہ مسئلہ عوام ہی حل کر سکتے ہیں اور یہ حل ایک عوامی تحریک کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتا ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے! ہمارے یہاں اگر ایک عوامی تحریک پروان چڑھتی ہے، تو میں اگل صف میں ہوںگا!اُن کے مطابق اب دیکھئے، فی الوقت مرکزی حکومت نے ایسا رویہ اختیار کیا ہے جیسے کہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ اس کا کوئی واسطہ ہی نہیں ہے اور مرکزی سرکار ایک طرح سے یہاں کے عوام کے ساتھ برسرپیکار ہے!پروفیسر سوز نے کہا کہ حدبندی کمیشن کی طرف سے پیش کردہ سفارشت پر رد عمل اظہار کرتے ہوئے پیپلز کانفرنس نے جو رویہ اختیار کیا ہے ، وہ عوامی مفادات کے سلسلے میں غور طلب ہے۔اُن کے مطابق اگر سجاد غنی لون نیشنل کانفرنس کے عدالت میں جانے کے فیصلے کو غلط مانتا ہے ، تو اُس کو عوامی مفاد ات میں نیشنل کانفرنس اور دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت کر کے عوامی تحریک شروع کرنے میں مدد دینی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ گویا ،اگر پیپلز کانفرنس جائز طور پر عدالت میں نہیں جانا چاہتی ہے، تو عوامی مفاد میں اُس کو نیشنل کانفرنس اور گپکار الائنس کی حمایت کرنی چاہئے۔یعنی یہ بات ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ یہ وقت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا نہیں ہے ،بلکہ مفاہمت کا ہے۔ سجاد غنی لون صاحب جب آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں ، تو اُن کو یہ بھول جاتا ہے کہ ایک پر زور عوامی تحریک کے سامنے آئین اور قوانین دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں!!