شیوپال کو ڈپٹی اسپیکر بنانے کی چہ میگوئیوں سے ایس پی میں بے چینی
اٹاوہ:مارچ۔پرگتی شیل سماج وادی پارٹی(پی ایس پی) صدر شیوپال سنگھ یادو کو اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر بنائے جانے کی گردش کررہی خبروں سے سماج وادی پارٹی(ایس پی) میں بے چینی دکھائی دینے لگی ہے۔سیاسی حلقے میں چہ میگوئیوں کا بازار گرم ہے کہ ایس پی صدر اکھلیش یادو کے ایم ایل اے چچا کو بی جے پی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر کے عہدے سے نواز سکتی ہے۔ گذشتہ کچھ دنوں سے بی جے پی کے لیڈروں سے رابطہ بڑھا رہے شیوپال اس عہدے کو قبول کرنے کو تیار ہیں ،یہ بھی ایک سوال ہے جس کا جواب ابھی ملنا باقی ہے۔خود کے بارے میں طرح طرح کی چہ میگوئیوں پر صفائی دینے کے بجائے شیوپال صرف یہ کہہ کر خاموش ہوجارہے ہیں کہ وقت آنے پر بتائیں گے۔ ان کی یہی ادا ایس پی خیمے کو بے چین کئے ہوئے ہے۔اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی کرسی کو اگر شیوپال قبول کرتے ہیں تو وہ اسمبلی میں اپنے بھتیجے قائد حزب اختلاف اکھلیش یادو کے پاس بیٹھیں گے۔ اسمبلی ڈپٹی اسپیکر کی سیٹ ایوان میں ٹھیک قائد حزب اختلاف کے بعد کی ہوتی ہے۔پی ایس پی سربراہ شیوپال یادو ضلع اٹاوہ کی جسونت نگر اسمبلی سیٹ سے لگاتار چھٹی بار ایم ایل اے منتخب ہوئے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی شیوپال سماج وادی پارٹی(ایس پی) کے نشان سائیکل سے منتخب ہوئے ہیں۔10مارچ کو ووٹنگ میں جب سماجوادی پارٹی اقتدار کے قریب تک بھی نہیں پہنچ سکی تو شیوپال سنگھ یادو نے اپنے بھتیجے اکھلیش یادو ے طرز عمل پر سوال اٹھانا شروع کردیا۔ جس سے اکھلیش یادو سے دوریاں بڑھنی شروع ہوگئی اس پر مستضاد یہ کہ ایس پی نے نومنتخب اراکین اسمبلی کی میٹنگ میں شیوپال کو نہیں بلایا تو شیوپال کھل کر سامنے آگئے۔ہولی کے موقع پر ملائم ، رام گوپال اور اکھلیش یادو کے ساتھ سیفئی میں ہولی کھیلنے والے شیوپال 26مارچ کے بعد یہ کہہ کر ناراض ہوگئے کہ انہیں ایس پی کی میٹنگ میں نہیں بلایا گیا لیکن جب 29مارچ کو ایس پی کی اتحادی پارٹیوں کی میٹنگ میں انہیں بلایا گیا تو شیوپال نے میٹنگ میں شامل ہونے کے بجائے بھجن میں شرکت کو ترجیح دی۔اس درمیان 30مارچ کو شیوپال نے حلف برداری کے ساتھ ہی وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات تو کی ہی نوراتری کے پہلے دن سوشل میڈیا پر وزیر اعظم نریندر مودی کو فالو کرنے سے ان کی بی جے پی سے قربت صاف اشارےملنے لگے۔اس سے پہلے بی جے پی کی طرف سے انہیں راجیہ سبھا بھیجے جانے اور ان کی سیٹ جسونت نگر پر ضمنی الیکشن میں بیٹے آدتیہ یادو کو اتارنے کی خبریں گردش میں تھیں۔سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ بی جے پی کے صلاح کاروں کے پاس راجیہ سبھا کے علاوہ ڈپٹی اسپیکر بنانے کا بھی متبادل ہے۔ اسمبلی میں اس بار اکھلیش یادو نے بطور قائد حزب اختلاف جارح رویہ اپنانے کے اشارے دئیے ہیں۔ایسے میں اسمبلی ڈپٹی اسپیکر کے طور پر شیوپال کو منتخب کر کے بی جے پی ایس پی سربراہ پر ذہنی دباؤ بنا کر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ایس پی ایم ایل اے شیوپال یادو کے لئے بی جے پی اسی طرح کی حکمت عملی اپنا سکتی ہے جیسی اس نے اس سے پہلے ایس پی ایم ایل اے نتن اگروال کو اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر منتخب کئے جانے کے لئے اپنائی تھی۔ اس میں وہ کامیابی بھی ہوئی۔ نتن اگروال ایس پی ایم ایل اے تھے اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے بی جے پی کے ساتھ چلے گئے تھے۔سیاسی ماہرین بتاتے ہیں کہ پالیمانی روایات کے مطابق اسمبلی اسپیکر حکمراں جماعت کا اور ڈپٹی اسپیکر حزب اختلاف کا ہوتا ہے۔ اس لئے تکنیکی طور پر ایس پی ایم ایل اے نتن اگروال کو بی جے پی نے اپوزیشن کا امیدوار مانتے ہوئے بلا مقابلہ انہیں ڈپٹی اسپیکر منتخب کروا دیا تھا۔ اس کے لئے ایس پی کی مرضی نہیں تھی۔ وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپائی۔ اب نتن اگروال بی جے پی سے الیکشن جیت کا آبکاری وزیر ہیں۔شیوپال کے بی جے پی میں شمولیت کی چہ میگوئیوں کے درمیان بی جے پی کے سینئر رہنماؤں کو مانیں تو انہیں ایسی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ شیوپال کے بی جے پی میں شامل ہونے کو نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریہ کے بعد وزیر تعلیمات یوگیندر اپادھیائے نے طنز کستے ہوئے کئی طرح کے سوال کھڑے کئے ہیں۔شیوپال کے بی جے پی میں شامل ہونے کے مسئلے پر کیشو پرساد موریہ کے”نو ویکنسی” والے بیان کے بعد وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ بی جے پی کو اب کسی پارٹنر کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ ایسے سوال ہیں جو کہیں نے کہیں شیوپال کے بی جے پی میں مبینہ شامل ہونے کے مشن پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔