اگست انقلاب کی۷۲ ویں سالگرہ
ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ۹؍اگست کا دن آزادی کے تحفظ کے دن کی حیثیت سے منایاجاتا ہے کیونکہ ۷۸ برس پہلے مولانا آزادکی زیر صدارت انڈین نیشنل کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے اپنے تاریخی اجلاس ۸؍ اور ۹؍اگست ۱۹۴۲ء کی درمیانی رات کو بمبئی میں ’’انگریزوہندوستان چھوڑو‘‘ کی تجویز پاس کرکے جدوجہد آزاد ی کو ایک انقلابی موڑ دیا تھا اور مہاتما گاندھی نے ہندوستان کے عوام کو ’’کرویا مرو‘‘ کاوہ نعرہ دیا تھا جس سے انگریزوں کے ایوان ِ حکومت میں ایک زلزلہ سا آگیا اور بیرونی حکمرانوں نے نہ صرف ہمارے قومی رہنمائوں کو گرفتار کرلیا بلکہ سول نافرمانی کی ایک ایسی تحریک کا بھی انہیں سامنا کرنا پڑا جو ملک کی آزادی پر جاکر ختم ہوئی اسے ’’اگست انقلاب کی تحریک‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔
’’ہندوستان چھوڑو تحریک‘‘ کو آج ۷۸ برس گذر چکے ہیں اور ایک کے بعد ایک تیسری نسل نے پرانی پیڑھی کی جگہ لے لی ہے ان نئی نسلوں کو آج یہ بتانے کی ضرورت ہے ہماری پوری جدوجہد آزادی کی طرح ’’ہندوستان چھوڑو تحریک‘‘ کی کامیابی بھی کسی ایک فرقہ یا گروہ کی قربانیوں کا ثمرہ نہیں بلکہ اس ہندو مسلم اتحاد کا نتیجہ ہے جو انگریز سامراج کیلئے چیلنج بن گیا، ہندوئوں نے جہاں کھانے پینے کی چھوت چھات کو فراموش کرکے مسلمانوں کے ساتھ کھانا پینا شروع کردیا تھا وہیں مسلمانوں نے اپنی مساجد کے دروازے ہندو رہنمائوں کے لئے کھول دیئے تھے تاکہ وہ مسجدوں کے ممبروں سے مسلمانوں کومخاطب کرکے آزادی کی جدوجہد کو ہوا دے سکیں لہذا سوامی شردھانند نے دہلی کی جامع مسجد میں اور مہاتماگاندھی، سروجنی نائیڈو وغیرہ نے ممبئی اور دوسرے شہروں کی مساجد میں تقاریر کیں نیز ہندو مسلم اتحاد کے اسی مظاہرہ کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ اپنے وقت کی سب سے بڑی طاقت برٹش ایمپائر سرنگوں ہوگئی اور آخر کار ۱۹۴۷ء میں ہمارا ملک آزاد ہوا۔
لیکن ان تمام قربانیوں کو پیش کرتے اور طرح طرح کی صعوبتوں کو برداشت کرتے وقت ہماری پرانی نسل کے سامنے ملک کی آزادی کا ایک واضح تصور تھا کہ جب آزادی ملے گی تو اس میں سب کو مساویانہ یا کم از کم منصفانہ حق ضرور ملے گا لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس راستہ پر ابھی ہم اور ہمارا ملک کافی پچھڑا ہوا ہے۔
ہر سال ۹؍اگست یا ۱۵؍اگست آکر ہمیں یہی دعوت دیتے ہیں کہ پیچھے مڑکر ہم دیکھیں کہ اتنے برس میں کس قدر سفر طے ہوا۔ ہم آزادی کی بنیادی ضرورتوں یعنی قومی اتحاد، یک جہتی، سماجی انصاف اور اقتصادی ترقی کی سمت میں کتنا سفر طے کرسکے جہاں تک معاشی ترقی اور سماجی اصلاحات کا تعلق ہے تو اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ کثرتِ آبادی اور غریبی کے باوجود ملک نے صنعتی وسائنسی ترقی کی ایک بنیاد قائم کی ہے البتہ قومی اتحاد وسماجی انصاف ایسے شعبے ہیں جن میں پیش رفت تو ہوئی لیکن حالیہ چند برسوں کے دوران اس راہ میں کافی رکاوٹیں بھی کھڑی ہوگئی ہیں اور وہ کریکٹر کافی کمزور پڑگیا ہے جوجدوجہد آزادی کے وقت ابھر کر سامنے آیا تھا یہ کیریکٹر ملک پر سب کچھ نثار کردینے اور مل جل کر رہنے کا تھا آج اس کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت سب سے زیادہ محسوس ہورہی ہے۔ اور جب تک اس کیریکٹر کو ابھارا نہیں جائے گا۔ فسادات اور رشوت خوری کے اسکینڈل سامنے آتے رہیں گے اور ایک دن یہ ملک کوتوڑنے یا دوسروں کو غلامی کا راستہ بھی کھول سکتے ہیں، لیکن اس واضح حقیقت اور تلخ سچائی کا افسوس ہے ملک کے حکمرانوں کو ذرا بھی لحاظ نہیں ہے وہ سیاسی مفاد پرستی میں اندھے ہوکر ملک کا مستقبل دائو پر لگارہے ہیں۔