آخری عشرہ :اعتکاف اورشب قدربہت اہم

عبداللطیف ندوی
رمضان کا مہینہ بے شمار عظمت واحترام کا مہینہ ہے ، دن کے فرض روزے ، رات میں قیام اللیل، گناہوں کی معافی ، رفع درجات اور اللہ کے قرب کے بے شمار مواقع ، اعمال صالحہ کی طرف رغبت اور برے اعمال سے روکنے کیلئے متعین فرشتے، نیکیوں کے اجر وثواب میں اضافہ ، دعاؤں کی قبولیت کے امکانات، شیطان کے محدود اختیارات ، انھیں قید و بند کی صعوبتیں، برائیوں کی جانب بڑھتے قدموں کو روکنا۔ جنت کے تمام دروازوں کا کھلنا، دوزخ کے دروازے بند کرنا اور دوزخ سے بچ کر جنت کے مستحق ہونے کے خصوصی مواقع اور اس مہینہ کے دیگر بے شمار امتیازات۔یعنی پورا مہینہ خیر و برکت اور اللہ کی رحمتوں کے نزول کا موسم بہار، اور پھر اس کا آخری عشرہ ایک طرح سے محاسبہ اور اپنے اعمال کے جائزہ کا عشرہ ’’ اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے (الحشر : ۱۸) کہ ہرشخص جائزہ لے کہ آخراس نے آخرت کیلئے کیاپیش کیا۔یہی وہ عشرہ ہے جس میں رحمتوں برکتوں اور مغفرت کے دیگر کئی اور مواقع دئیے گئے۔ قرآن میں غور سے تو یہ امکان قوی ہو جا تا ہے کہ شاید اسی آخری عشرہ کی اہمیت اور فضیلت کی وجہ سے ہی روزہ کی فرضیت کیلئے رمضان کا انتخاب کیا گیا ’’کہ رمضان میں قرآن نازل ہوا‘‘۔(البقرہ:۵۸۱)
یقینارمضان کا پورا مہینہ دیگر مہینوں میں ممتاز اور خصوصی مقام کا حامل ہے، لیکن رمضان شریف کے آخری دس دنوںکے فضائل اور بھی زیادہ ہیں۔ نبی کریمؐ رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت وطاعت ، شب بیداری اور ذکر و فکر میں اور زیادہ منہمک ہوجاتے تھے۔ احادیث میں ذکرہے، ام المومنین حضرت عائشہؓفرماتی ہیں کہ نبی اکرمؐ آخری عشرہ میں اتنا مجاہدہ کیا کرتے تھے جتنا دوسرے دنوں میں نہیں کیا کرتے تھے۔(صحیح مسلم) سنن ابن ماجہ ، صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد میں بھی اسی مفہوم کی احادیث مروی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے اخری عشرہ میں آپؐ کے معمولات دیگر ایام کے مقابلہ میں بڑھ جاتے تھے۔دیگر احادیث میں آپؐ کے معمولات کی تفصیلات ملتی ہیں۔ جیسا کہ اس حدیث میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تونبیکریمؐ رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمرکس لیتے اوراپنے گھروالوں بھی جگاتے تھے۔ (صحیح بخاری)شعب الایمان بیہقی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے بستر پر نہیں آتے تھے۔ (حدیث:3471)
راتوں کو اٹھ کر عبادت کرنے کا معمول آپؐ کا تو ہمیشہ ہی تھا، لیکن رمضان میں آپ کمر کس کر عبادت کیلئے تیار ہوجاتے اور پوری پوری رات عبادت میں گزارتے۔ یہ بات حضرت عائشہ ؓ کی ایک دوسری روایت سے اور زیادہ واضح ہوتا ہے ، وہ بیان فرماتی ہیں: مجھے یاد نہیں کہ نبی ؐ نے رمضان کے علاوہ کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید پڑھا ہو یا پھر صبح تک عبادت ہی کرتے رہے ہوں ، یا رمضان المبارک کے علاوہ کسی اورمکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں۔ (سنن نسائی ،حدیث : 1336)
دوسرا خصوصی معمول جس کا ذکرحدیث میں ہے وہ ہے اپنے اہل خانہ کو رات میں عبادت کے لیے جگانا۔احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ اپنے گھروالوں کو سارا سال ہی جگایا کرتے تھے ، لہٰذا رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ جگانے کے ذکر کا صاف مطلب یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں نبی کریمؐ اپنی گھروالوں کو باقی سارے سال کی بہ نسبت جگانے کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔
اعتکاف :معتکف کو چاہیے کہ وہ مسجد کے ادب واحترام کا خاص خیال رکھیں ،زورزور سے چلا چلا کر بات نہ کریں ،اپنا زیادہ وقت عبادات میں گذاریں ،اپنے گناہوں پر نادم وشرمندہ ہوکر اللہ سے سچی توبہ کریں ،اپنی فوت شدہ نمازوں کو ادا کریں ،قرآن کریم کی تفسیر کے ساتھ تلاوت کرنے کی کوشش کریں۔اس سنت نبویؐکے ذریعے اپنی ظاہری اور باطنی زندگی میں بدلائو لانے کی کوشش کریں۔ اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
شب قدر: رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات ’’شب قدر ‘‘ کہلاتی ہے جو بہت ہی برکت اور خیر کی رات ہے۔وہ انسان بڑا خوش نصیب ہے جس کو اس رات کی عبادت نصیب ہو جائے۔جس رات میں اللہ نے قرآن حکیم کو نازل فرمایا ،جس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ،جس رات میں اللہ کے فرشتے اللہ کی طرف سے مغفرت اور سلامتی کی دعا کرتے ہیں طلوع فجر تک جس کا ذکر اللہ کریم نے سورہ قدر میں اس طرح فرمایا ہے ’’بیشک ہم نے قرآنشب قدر میں نازل فرمایا۔اور تم نے کیا جانا کیا شب قدر۔شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر اس میں فرشتے اور جبرئیلؑ اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے۔وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک‘‘( القدر )۔
شب قدر کی ا فضیلت :حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے ،نبی کریمؐنے فرمایا ’’جس نے اس رات میں ایمان واخلاص کے ساتھ شب بیداری کر کے عبادت کی تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے تمام گناہ صغیرہ کو معاف فرمادیتا ہے ‘‘(صحیح البخاری)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ جب ماہ رمضان آیا تو نبیؐنے ارشاد فرمایا ’’بے شک تمہارے پاس یہ مہینہ ہے اور اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ تمام نیکیوں سے محروم رہا اور محروم وہی رہے گا جس کی قسمت میں محرومی ہے۔(سنن ابن ماجہ )
لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ اس رات کو لہو لعب اور بیکار گزارنے کے بجائے رب کی عبادت میں گزارے۔اس رات میں کثرت سے استغفار کرے۔اللہ کے نبی ؐ نے ہمیں یہ بتایا کہ ہم اس رات کو کیسے گزاریں۔حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں’’اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تومیں اس رات میں یہ دعا بکثرت مانگوں گی ’’اے اللہ میں تجھ سے مغفرت اور عافیت کا سوال کرتی ہوں ‘‘اللہ ہم سب کواس ماہ مقدس اور شب قدر کی برکتیں اور رحمتیں عطا فرمائے۔ آمین ۔

Related Articles