آب و ہوا کی تبدیلی اور صدر بائیڈن کا عالمی انفراسٹرکچر کی تعمیر کا پروگرام

گلاسگو،نومبر۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اقوامِ متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کی کانفرنس کے موقع کو، ایک ماحول دوست اور باہمی تعاون پر مبنی عالمی بنیادی ڈھانچے سے متعلق اپنے وڑن کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام 2050 تک کارین گیسوں کے اخراج کو صفر پر لانے کا راستہ ہموار کرے گا۔ان کا یہ منصوبہ چین کے ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ پروگرام کا ایک متبادل بھی بن سکتا ہے۔انہوں نے اس موقع پر گلاسگو میں ایک گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرہ ارض کو دوبارہ بہتر بنانے، برطانیہ کے شفاف اور ماحول دوست پروگرام اور ایک عالمی شاہراہ کا تصور، یہ سب جی سیون ملکوں کی ان کوششوں کا حصہ ہیں جن کا مقصد ایک اعلیٰ معیار کے پائیدار عالمی ڈھانچے کی تعمیر ہے۔امریکہ سمیت دنیا کے 100 سے زیادہ ملکوں نے عالمی درجہ حرارت کو گھٹا کر صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت کی ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کی سطح پر برقرار رکھنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔صدر بائیڈن نے جون میں ہونے والی جی سیون کی سربراہی کانفرنس میں دنیا کو دوبارہ بہتر بنانے کے اپنا نظریہ پیش کیا تھا، جس کا مقصد اعلیٰ، معیاری، ماحول دوست اور پائیدار انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے ترقی پذیر ملکوں کی مالی اعانت کرنا تھا۔مینڈوسینو جھیل پر نصب ایک بورڈ جس میں بتایا گیا ہے کہ خشک سالی کے باعث جھیل میں پانی انتہائی کم رہ گیا ہے۔صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ترقی پذیرممالک میں ایسے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر ضروری ہے جو سبز اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کرہں۔امریکہ نے اپنے اس منصوبے پر ابتدائی کام شروع کر دیا ہے۔ قومی سلامتی کے نائب امریکی مشیر دلیپ سنگھ کی قیادت میں اہل کار اس ہفتے گھانا اور سینیگال میں انفراسٹرکچر کے منصوبوں کا جائزہ لینے کے لیے موجود ہیں۔ اس سے قبل وہ ستمبر میں کولمبیا، ایکواڈور اور پانامہ کے اسی نوعیت کے دورے کر چکے ہیں، جب کہ کئی اور علاقوں کے دوروں کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔دوسری جانب ملک کے اندر صدر بائیڈن کے ان منصوبوں کو کانگریس میں حزب اختلاف ری پبلیکنز کی جانب سے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔گلاسگو سربراہی اجلاس میں کوئلہ پیدا کرنے والے ایک بڑے ملک جنوبی افریقہ نے امریکہ، یورپی یونین اور دیگر یورپی ممالک کے ساتھ مزید صاف توانائی کے متبادل تعمیر کرنے اور کوئلے کی صنعت سے منسلک کارکنوں کی مدد کے لیے ساڑھے 8 ارب ڈالر کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ایک امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام میں جنوب مشرقی ایشیا کے پروگرام کوآرڈی نیٹر لوکاس مائرز نے کہا ہے کہ چینی سرمایہ کاری خاص طور پر ان ممالک کے لیے کشش رکھتی ہے جن کے انسانی حقوق کے ریکارڈ خراب ہیں اور وہاں اعلیٰ سطح پر بدعنوانی پائی جاتی ہے کیونکہ ان کی شرائط زیادہ لچکدار ہیں اور ضوابط زیادہ سخت نہیں ہوتے۔ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کے لیے چیلنج یہ ہے کہ سخت مالی ضابطوں، انسانی حقوق اور ماحولیاتی معیارات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے پروگراموں کو لچک دار اور کم لاگت کیسے بنائے۔سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل کے ایک سینئر فیلو جوناتھن ای ہل مین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کے جی سیون کے شراکت داروں کے منصوبے بی تھری ڈبلیو کے چار اہم ستون آب و ہوا، صحت، ڈیجیٹل اور انسانی صنف ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر امریکہ اور اس کے شراکت دار پنشن فنڈز، لائف انشورنس کمپنیوں اور دیگر ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے لیے متحرک کر سکیں تو امریکہ کا منصوبہ چین کے ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ منصوبے سے کہیں زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کار چینی منصوبے کی مالیت کا اندازہ ایک ٹریلین سے 8 ٹریلین ڈالر کے درمیان لگاتے ہیں۔ہل مین کا کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ جیسے جیسے امریکی پروگرام کے کامیاب منصوبوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا، مزید ممالک اس طرف راغب ہوں گے اور اگر واشنگٹن اس سے ملتے جلتے ترقیاتی پروگراموں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کر لے تو اس کا اثر بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔امریکہ کا دوسرے ملکوں کی مدد کرنے اور وہاں بنیادی ڈھانچے تعمیر کرنے کا طویل ریکارڈ ہے جس میں جنگ کے بعد ایک مارشل پلان کے تحت تعمیر نو کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ لیکن پہلی بار ٹرمپ انتظامیہ نے پہلی بار چین کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کاری کے پروگرام پر تنقید کرتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔سن 2018 میں اس وقت کے امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے چین کے رہنما ڑی جن پنگ پر الزام لگایاتھا کہ وہ قرضوں کی سفارت کاری کے ذریعے چین کا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ چین ایشیا سے لے کر افریقہ سے یورپ اور لاطینی امریکہ تک کے ملکوں کو اپنے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے اربوں ڈالر کے قرضے دے رہا ہے، جب کہ ان قرضوں کی شرائط واضح نہیں ہیں اور ان کے فوائد بڑے پیمانے پر بیجنگ کو حاصل ہوتے ہیں۔سن 2018 میں اپنے ایشیا کے دورے میں پینس نے اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی کہ چین کے مقابلے میں امریکہ کی انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ فنانس کارپوریشن دنیا بھر میں انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر 60 ارب ڈالر کا سرمایہ فراہم کر رہی ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ ابھی تک خود کو چین کے ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ پروگرام کے ایک بہتر متبادل کے طور پر پیش نہیں کر سکا۔ انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا بھر میں ڈھائی ارب مالیت کے 57 پراجیکٹ چلا رہی ہے۔ لیکن وہ منصوبے سابق صدر ٹرمپ کی محدود وقت کی جیوپولیٹیکل مفاد کے تابع تھے جن میں مشرق وسطیٰ بھی شامل ہے۔ کیونکہ سرمایہ کاری کی پیش کش ابراہام معاہدے پر دستخط کرنے والے ملکوں کو کی گئا تھی جس کا ایک مقصد اسرائیل کو سفارتی طور پر تسلیم کرانا تھا۔

Related Articles