کوپ 26 اور ماحولیاتی تبدیلی
کرہ ارض کو بچانے کے لیے امریکی صدر بائیڈن کی طاقت کی حد کیا ہے؟
گلاسگو،نومبر۔گلاسگو میں جب امریکی صدر جو بائیڈن تقریر کے لیے سٹیج پر گئے تو انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ دنیا کو ایک بات باور ضرور کرائیں گے۔وہی بات جو انھوں نے اتوار کی رات روم میں جی 20 کی پریس کانفرنس میں باور کرائی تھی: ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں امریکی لیڈرشپ ماحولیات کے تحفظ کے لیے 555 ارب ڈالر کی خطیر رقم کو مختص کرنے سے متعلق ایک مسودۂ قانون امریکی کانگریس کے سامنے زیر غور ہے۔امریکی صدر نے اپنی تقریر میں اشارتاً اس کا ذکر بھی کیا۔امریکہ کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی کسی حکومت نے اتنی خطیر رقم عالمی حدت کو کم کرنے کے لیے مختص نہیں کی۔ اس رقم کو شفاف ذرائع سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔لیکن یہ مسودہ قانون ابھی منظور نہیں ہو سکا ہے اور یہ بھی یقینی نہیں ہے کہ صدر بائیڈن اس کی منظوری کے لیے کانگریس میں مطلوبہ حمایت حاصل کر پائیں گے۔مجوزہ قانون میں توانائی پیدا کرنے والی ان کمپنیوں کی جو زمین سے حاصل کردہ ذرائع سے توانائی پیدا کرتی ہیں، حوصلہ شکنی کرنے اور غیر روایتی ذرائع سے توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنے سے متعلق ایک اہم شق پر جو بائیڈن کی اپنی ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جو مینچن نے مخالفت کر دی ہے۔ سینیٹر جو مینچن ویسٹ ورجینا کی نمائندگی کرتے ہیں جو علاقہ کوئلے کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔اس مسودہ قانون پر پیش رفت میں رکاوٹ ایوان صدر کے لیے انتہائی پریشان کن تھی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ صدر بائیڈن کے ’جی ٹوئنٹی‘ ملکوں کے اجلاس میں شرکت کے لیے روم پہنچنے سے قبل یہ قانون منظور کر لیا جائے۔اس وجہ سے صدر بائیڈن کو دوسرے ملکوں کے صدور اور سربراہاں کے مقابلے میں کوئی برتری حاصل نہیں ہوتی۔ان کی یہ بات اخلاقی طور پر کس قدر وزن رکھتی ہے کہ دیکھیں میں کیا کرتا اگر میرے پاس مطلوبہ ووٹ ہوتے۔ ایک مسئلہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا ہے جو امریکی صدر کی ماحول دوستی کے لیے مشکالات کھڑی کر سکتا ہے۔جو بائیڈن ماحولیات کے مسئلے پر دنیا کی رہنمائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں وہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کو اپنی پیداوار بڑھانے پر قائل کرنے میں مصروف ہیں تاکہ امریکی صارفین کو مناسب قیمتوں پر تیل کی فراہمی جاری رکھی جا سکے۔اس وقت صارفین انتہائی برانگیختہ ہیں کیونکہ انہیں ایک گیلن تیل تین ڈالر میں خریدنا پڑ رہا ہے۔صدر بائیڈن کو چاہیے کہ وہ ان صارفین کو لندن کے پیٹرول پمپوں کا دورہ کرائیں تاکہ امریکی شہریوں کو یہ احساس ہو سکے کہ وہ اس معاملے میں کتنے خوش قسمت ہیں۔امریکہ ایک ایسا ملک ہے جہاں موسم کے بارے میں لوگ جنون کی حد تک حساس ہیں کیونکہ یہاں سمندری طوفان، قطبی بگولے، آندھیاں اور جھلسا دینے والی گرمیوں کی لہریں اور دیگر قدرتی آفات آتی رہتی ہیں۔لیکن ماحول کے بارے میں لوگوں کو اتنی فکر نہیں ہے باوجود اس کے کہ حالیہ برسوں میں ملک بدتریں قدرتی آفات کی لپیٹ میں رہا ہے جن میں درجہ حرارت میں شدید اضافے سے جنگل میں بھڑکنے والی آگ، سمندری طوفان اور ٹیکساس جیسے علاقے میں منجمد کر دینے والی سردیاں شامل ہیں۔لیکن اس مرحلے پر اگر نظر دیگر جگہوں پر ڈالی جانے چاہیے۔ جو المیہ یا مشکل صدر بائیڈن کی ہے وہ کسی شکل میں روم اور اس کے بعد گلاسگو میں جمع ہونے والے دیگر عالمی رہنماؤں کو بھی درپیش ہے۔منتخب ارکان ہیں، قومی اسمبلیاں ہیں اور منتخب ایوان ہیں جن میں بیٹھنے والے اکثر اپنے وزراء اعظم اور صدور سے متفق نہیں ہوتے اور بہت سے امور پر ان کی حمایت اس طرح نہیں کرتے جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔پھر عوام آتے ہیں جو ان منتخب ارکان کو ووٹ نہ ڈال کر سزا دیتے ہیں جو ایسے اقدامات کی حمایت کرتے جن سے ان کی نوکریاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں یا ان کو تیل کی زیادہ قیمتیں ادا کرنی پڑتیں ہیں۔جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس سے جو یاداشت نکل کر سامنے آئی اس کی زبان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماحولیاتی ہدت کو سنہ 2050 تک ڈیڑھ ڈگری تک رکھنے کی ضرورت کو سب ہی سمجھتے ہیں۔اس عظیم مقصد کے لیے جو ٹھوس اقدامات ہونے چاہییں، ان اقدامات کو اس یاداشت میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ہو سکتا ہے کہ گلاسگو میں ہونے والی کانفرنس میں عالمی رہنما سیاست دانوں کی طرح کا رویہ اختیار نہ کریں اور وہ تمام اقدامات اپنائیں جن کا مطالبہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن کر رہے ہیں۔لیکن بہرصورت ان کے ذہن میں ہو گا کہ ان اقدامات پر اپنے عوام کو قائل کرنا ان کے لیے کس قدر ممکن ہو گا اور کیا ان کے ملک کے لیے دشواری پیدا نہیں ہو گی اور کیا ان اقدامات کو اختیار کرنے سے وہ اپنا ذاتی نقصان نہیں کر رہے ہوں گے؟امریکہ کی اصل قوت کا ایک منظر میں نے اس وقت دیکھا جب روم میں سینٹ پیٹرز سکوئر کو جانے والے راستے پر صدر بائیڈن کا 85 گاڑیوں پر مشتمل قافلہ میرے سامنے سے گزرا۔امریکہ اب بھی دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہے اور صدر بائیڈن دنیا کے طاقت ور ترین صدر ہیں۔لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ہی جماعت کے ورجینا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر پر زور نہیں چلا سکے۔ گلاسگو میں اگلے دو ہفتوں کے دوران موجود رہنے والے تمام رہنما ان سے کہیں کمزور ہوں گے۔