حقوقِ نسواں، رحمت ِعالم کے ارشادات و کردار کی روشنی میں
ڈاکٹر مرضیہ عارف(بھوپال)
حضور انور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعث کے وقت پورا عالم اور خاص کر جزیرۂ نما عرب گہری تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا چہار طرف فسق و فجور، جہالت و گمراہی اور وحشت و بربریت کا دور دورہ تھا ، تہذیب، اخلاق، امن ، انصاف اور محبت و اخوت کا دور دور تک نشاں نہ تھا حقوق انسانی بے دردی سے پامال کئے جارہے تھے، جہالت و گمراہی کا سب سے بڑا نشانہ عورت کی ذات بنی ہوئی تھی ،اکثر لڑکیاں پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردی جاتیں ، عورتوں کو پیر کی خاک سے بدتر سمجھا جاتا ، ایک ایک مرد اپنے پاس لاتعداد عورتیں جمع کر لیتا تھا اور موت کے بعد یہ تمام عورتیں مال و جائیداد کی طرح ترکہ کے طور پر اس کی اولاد میں تقسیم ہو جاتی تھیں ، عورت کا نہ تو ماں باپ کی وراثت میں حق تھا ، نہ ہی شوہر کے مال و اسباب میں اور اس وقت عالم عرب پر ہی کیا موقف پوری عالم انسانیت اسی بے راہ روی اور گمراہی کا شکار بنی سسک رہی تھی، پوری دنیا میں بیٹیوں کا پیدا ہونا نحوست و ادبار کی علامت شمار کیا جاتا تھا ۔ مغرب میں تو عورت کے قتل کا جرم بھی قابل سزا نہ تھا، ایران میں دو قسم کی بیویاں پائی جاتی تھیں پہلی قسم کی بیویوں اور ان کی اولاد کا جائیداد و ترکہ میں حصہ تھا مگر دوسری قسم اس سے محروم تھی ، وہاں بیویاں بغیر کسی قباحت کے آپس میں تبدیل کرلی جاتی تھیں ۔ ایرانی قانون نے غلام اور عورتوں کو ایک ہی سطح پر رکھ چھوڑا تھا،خود ہندوستان میںعورتوں کو جملہ برائیوں اور نا آسودگیوں کا مجموعہ تصور کیا جاتا تھا، عورتوں کے لئے یہ قانون نافذ تھا کہ اگر کوئی عورت صرف لڑکیاں پیدا کرے تو اس سے رشتہ ازدواج منقطع کر لیا جائے، یہاں اونچی ذات کے لوگ عام لوگوں سے کہیں زیادہ عورتیں رکھنے کے حقدار تھے، عورتوں کو ان کے خاوندوں کے مردہ جسموں کے ساتھ زندہ نذر آتش کر دیا جاتا تھا ۔ ’’ستی‘‘ کی اس رسم کو مذہبی روایت کا درجہ حاصل تھا۔ حقوق نسواں کے لحاظ سے اس بدتر اور تاریک دور میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہادی برحق اور رحمت عالمؐ بن کر دنیا میں تشریف لائے اور آپؐ نے عورت کو معاشرہ میںایک اہم مقام عطا کرکے معاشرہ کا قابل احترام حصہ قرار دیا۔
حقوق نسواں اور اقوال نبوی
رسول پاکؐ نے واضح طور پر فرمایا:
٭ماں (کی حیثیت سے عورت) کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔
٭تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔
٭دنیا کی اعلیٰ ترین نعمت ایک نیک اور صالح بیوی ہے۔
٭لڑکیوں سے نفرت نہ کرو میں خود لڑکیوں کا باپ ہوں۔
٭جس کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو فرشتے آکر سلام کرتے ہیںاور لڑکی کو اپنے پروں کے سایہ میں لے لیتے ہیں ، اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس ناتواں و کمزور جان کی جو شخص پرورش کرے گا قیامت کے دن خدائے پاک اُس کا مددگار ہوگا۔
٭جس شخص نے بیٹیوں کی جوانی تک پرورش کی تو روز قیامت وہ اور میں دوملی ہوئی انگلیوں کی طرح ساتھ ہوں گے۔
٭صرف اتنا ہی نہیں بلکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو طلاق لینے کا حقدار بنایا ، اُسے باپ بھائی اور شوہر کے لئے باعث ثواب بتایا ، اُسے باپ بھائی اور شوہر کے ترکہ و مال میں حصہ کی خوشخبری سنائی، مہر کو عورت کا حق قرار دیا ، اور سب سے بڑھ کر انسانیت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عورت کو ایک ذمہ دار اور قابل احترام ہستی قرار دیا، مگر اسی کے ساتھ عورت کو فطری کو نسوانیت سے ہٹنے نہ دیا بچوں کی پرورش و تعلیم کے ساتھ گھر کا اُسی کو محافظ بتایا ۔ حضور ؐ نے عورتوں کو آرائش و زیبائش کی بھی تعلیم دی ، آپؐ اُن قریشی عورتوں پر اکثر فخر فرمایا کرتے تھے جو اپنا گھر بار سلیقہ اورخوش اسلوبی سے چلاتی تھیں ، حضرت ام سنانؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’جب میں مسلمان ہوئی تھی نبیؐ نے میرے ہاتھوں میں مہندی اور چوڑیاں نہ دیکھ کر فرمایا کہ تم عورتوں کے لئے تو یہ کچھ مشکل نہیں کہ اپنے پیرہن رنگ لیا کرو اور ہاتھوں میں چوڑیاں پہن لیا کرو خواہ وہ چمڑے ہی کی ہوں‘‘۔
آج دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مغربی تہذیب و تمدن میں عورتوں کے حقوق کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے اور ان کو پوری آزادی حاصل ہے مگر مغرب میں عورت کی آزادی کاایک تاریک پہلو یہ ہے کہ عورت دن بدن اپنی نسوانی خصوصیات اور دلکشی کھوتی جارہی ہے ، مردوں کے مشاغل اور طور طریقے اختیار کرکے عورت نہ تو عورت رہی اور نہ ہی مرد بن سکی ہے بلکہ اپنی تمام تر فطری رعنائیوں کو گنواں بیٹھی ہے۔ حضور پاک ؐ نے عورت کو بہت کچھ عطا کیا اور عورت ہی رہنے دیا یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمولی احسان نہیں۔