ملالہ کا طالبان حکمرانوں کے نام خط
لندن،اکتوبر۔امن کے لیے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی، جنہیں اسکول کے زمانے میں پاکستانی طالبان نے گولی مار کر زخمی کر دیا تھا، افغانستان کے نئے حکمرانوں پر زور دیا ہے کہ وہ لڑکیوں اسکول واپس آنے دیں۔افغانستان پر سخت گیر اسلام پسند طالبان کے اقتدار میں آنے کے تقریباً دو ماہ گزر جانے کے باوجود نئی حکومت نے لڑکیوں کو سیکنڈری اسکولوں میں واپس جانے سے روک رکھا ہے جبکہ لڑکوں کو کلاس میں واپس آنے کی اجازت دے دی ہے۔طالبان نے حالانکہ دعویٰ کیاہے کہ وہ سکیورٹی کو یقینی بنانے اور اسلامی قوانین کی تشریح کے تحت طلبہ اور طالبات کے درمیان سخت علیحدگی کرنے کے بعد لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول واپس آنے کی اجازت دیں گے۔ تاہم بیشتر لوگوں کو طالبان کی اس یقین دہانی پر شبہ ہے۔
طالبان کے نام کھلا خط:نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی اور افغان خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم متعدد کارکنوں نے ایک کھلے خط میں کہا ہے،’’طالبان حکام کے نام… لڑکیوں کی تعلیم پر جاری پابندی کو ختم کیا جائے اور لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں کو فوراً کھولا جائے۔ انہوں نے مسلم ملکوں کے رہنماوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ طالبان حکمرانوں پر یہ واضح کریں کہ’’مذہب لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکنے کا جواز نہیں فراہم کرتا۔ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں شہر زاد اکبر بھی شامل ہیں جو امریکی حمایت یافتہ سابقہ اشرف غنی حکومت میں افغان انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ تھے۔ طالبان حکومت سے اپیل کرنے والوں کا کہنا ہے،’’افغانستان اس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد ہے۔
جی 20 ممالک کے رہنماوں سے اپیل:خط پر دستخط کرنے والوں نے جی 20 ممالک کے رہنماوں سے اپیل کی ہے کہ وہ افغان بچوں کے تعلیمی منصوبے کے لیے فوراً مالی امداد فراہم کریں۔
اس خط کے ساتھ ہی ایک درخواست بھی پیش کی گئی ہے جس پر پیر کے روز تک چھ لاکھ 40 ہزار سے زائد دستخط موصول ہوچکے تھے۔خیال رہے کہ تعلیم کے لیے سرگرم پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کو تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسندوں نے سن 2012 میں وادی سوات میں اس وقت گولی مار کر زخمی کردیا تھا جب وہ اسکول بس سے اپنے گھر لوٹ رہی تھیں۔ملالہ اب 24 سال کی ہیں اور وہ بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم ہیں۔ ان کے غیر منافع بخش ملالہ فنڈ نے افغانستان میں 20 لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔دریں اثنا افغان وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے میڈیا سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا،’’جہاں تک میری سمجھ اور معلومات ہے، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو بہت جلد کھول دیا جائے گا اور لڑکیوں اور خواتین کو اسکول آنے اور تدریسی خدمات انجام دینے کی اجازت دے دی جائے گی۔ طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ فی الحال لڑکیوں کو اسکول جانے سے اس لیے روکا جا رہا ہے کیونکہ ماحول ابھی محفوظ نہیں ہے۔