تحریک شیخ الہند کا درخشاں باب: تحریک ریشمی رومال

شہزاد علی
تحریک آزادی کا ذکر ہو اور حضرت مولانا محمودالحسن سابق صدر مدرس دارالعلوم دیوبند(جن کو تاریخ میں شیخ الہند کے نام سے جانا جاتا ہے) کا نام نہ لیا جائے تو تحریک آزادی کی کتاب نامکمل ہی رہ جائے گی۔ اسی طرح حضرت شیخ الہند کے ساتھ آپ کے شاگرد حاص قائد انقلاب مولانا عبید اللہ سندھی کا نام نہ آئے تو حضرت شیخ الہندکی تحریک نامکمل رہ جاتی ہے۔ آپ کی نسبت حلقہ علماء میں یہ مشہور ہے کہ مولانا حسین احمد مدنی ومولاناعزیر گل حضرت شیخ الہند کے دست و پا تھے اور مولانا سندھی دماغ۔ مولانا سید احمد دہلوی مدرس اول دارالعلوم مولانا سندھی کے متعلق فرماتے تھے ” اگراس کو کتابیں ملیں تو یہ شاہ عبد العزیز ثانی ہوگا۔ مولانا سعید احمد اکبرآبادی فرماتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ کے بعد مولانا عبید اللہ سندھی سے روشن دماغ عالم بر اعظم میں پیدا نہیں ہوا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح سے علامہ اقبا ل کی وجہ سے مولانا رومی کو شہرت حاصل ہوئی،اسی طرح مولانا سندھی کی وجہ سے شاہ ولی اللہ کا چرچہ ہوا۔ (مکتوبات مولانا سندھی صفحہ 87)بہر حال مولانا عبید اللہ سندھی ضلع سیالکوٹ کے گائوں چیانوالی میں جناب رام سنگھ کے یہاں 17 مارچ 1872ء کوپیدا ہوئے جو مذہباََ سکھ تھے۔ آپ کا بچپن کا نام بوٹا سنگھ تھا۔ آپ نے زمانہ طالب علمی میں ایک نو مسلم عبیداللہ کے ذریعہ تحفہ الہند ” کتاب کا مطالعہ کیا جس کی بدولت آپ حلقہ اسلام میں داخل ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد 1887ء میں اظہار اسلام کا اعلان کر دیا۔ معروف عالم دین حضرت حافظ محمدصدیق کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ مولانا عبد القادر، مولانا خدا بخش کے حلقہ درس میں رہے۔ 1888 ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔ 1890ء کے سالانہ امتحان میں شریک ہوئے اور کلاس میں اول آئے۔ آپ نے اپنی ایک تحریر حضرت استاد مولانا محمود الحسن کو دکھائی جو آپ کو بہت پسند آئی حضرت نانوتوی کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ 1891ء حضرت شیخ الہند نے درس و تدریس کا اجازت نامہ تحریر کر کے دیا۔ اب آپ سندھ تشریف لے گئے وہاں دارالارشاد نام سے مدرسہ قائم کیا۔ امتحان لینے کے لیے استاد محترم کو بلایا۔ مگر حضرت شیخ الہنداپنے ہیرے کی پہچان کر چکے تھے۔ لہٰذا دیوبند آ جانے کا حکم دیا۔ 1909 میں مدرسہ سے گزشتہ برسوں میں فارغ التحصیل فضلاء پر مشتمل جمیعہ الانصار ” قائم کی۔ گویا مولانا سندھی پر حضرت شیخ الہند کے اعتماد اور بھروسہ کا پہلا مظہر یہ اجتماعیت تھی۔ پھر ایک عبقری دماغ استاد کا شاگرد پر اعتماد کا یہ سلسلہ بنا کہ تحریک شیخ الہند کا ہر بڑا اور مشکل مرحلہ مولانا عبید اللہ سندھی کے سپرد ہوا۔ مولانا سندھی بھی استاد محترم کے حکم کو فریضہ سمجھ کر ہدایات پر گامزن رہے۔ اپریل 1911ء میں جمیعہ الانصار کی پہلی کانفرینس مرادآباد میں منعقد کی۔ جس میں نوجوانان کے ملت جم غفیر نے پہنچ کر عوامی قوت کا مظاہرہ کیا۔ ۔ جس سے انگریز حکومت کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔ انگریز مستقبل پر نظر رکھنے لگے۔ مولانا سندھی کے خلاف دینی اور سیاسی پہلو سے ایک ماحول تیار کیا جانے لگا،جس کے نتائج برآمد ہوئے ارباب دارالعلوم نے آپ کے افکار پر نقطہ چینی کر آپ کو علیحدگی پر مجبور کر دیا۔ بہرکیف حضرت استاد نے آپ کو دیوبند سے دہلی منتقل کر دیا اور وہاں فتح پوری مسجد کے قریب 1912ء میں نظارہ المعارف القرآنیہ نام سے ایک علمی مرکز قائم کر مولانا سندھی کو اس کا ذمہ سپرد کیا۔جس کا مقصد انگریزی تعلیم سے نوجوانوں کے عقائد و خیالات پر جو بے دینی اور الحاد کازہریلا اثر پڑا ہے اس کو زائل کیا جائے ان کے شکوک شبہات دین اسلام سے دور ہو جائں۔ دوسرا مقصد ان نوجوانوں کو برطانوٰ ی حکومت کے خلاف منظم کرنا تھا۔ اس علمی مرکز کی سرپرستی حضرت مولانا محمود الحسن، ڈاکٹر مختار انصاری۔ حکیم اجمل خان،مولانا آزاد وغیرہ جلیل القدر حضرات تھے۔ قابض انگریز حکومت نے اپنے تفتیشی دستاویز میں اس علمی مرکز کو” سازشیوں (مجاہدین آزادی) کی جلسہ گاہ لکھا ہے۔ 1914ء میں عالمی جنگ چھڑ جانے پر مولانا محمود الحسن اور آپ کے رفقاء مجاہدین نے موقع کو غنیمت جانااور محسوس کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہندوستان سے انگریزوں کو باہر نکالنے کے لیے منظم جدو جہد کی جائے۔ یہ وہ وقت تھا جب کسی شہری کا اپنے حقوق کی بات کرنا، آزادی کی بات کرنا مطلب موت یا جیل تھا۔ ملک میں کوئی منظم تحریک نہ تھی۔ ہاں مجاہدین آزادی ملک و بیرون ملک برطانیہ کے خلاف صف آراء تھے۔ اندرون ملک عوام کو بیدار کرنے کے لئیتحریک چلائی، قبائلیوں کو جہاد کے لیے آمادہ کیاکہ انگریزی حکومت کے حلاف فوجی کاروائی کریں۔ ادھر مولانا شیخ الہند نے مولانا عبید اللہ سندھی کو کچھ رفقاء کے ساتھ مشن کی تکمیل کے لیے 1915 میں کابل روانہ کیا۔ دوسری طرف کچھ ہفتوں کے بعد شیخ الہند بھی ستمبر 1915ء کو سفر حجاز پر روانہ ہو گئے ایک اور وفد ڈاکٹر شاہ بخش و سید ھادی حسن وغیرہ پر مشتمل افراد کے ساتھ گورنر کے توسط سے ترک حکومت سے رابطہ کی غرض سے جدہ پہنچ چکا تھا۔ ان سرگرمیوں کی معمولی بھنک قابض حکومت کو لگ چکی تھی مگر کوئی ٹھوس ثبوت حاصل نہ تھا۔ لہٰذادیوبند دہلی میں گرفتار نہ کر سکے آپ کے ساتھ احتراماَ عوام کی بڑی تعداداجا رہی تھی آخر حکومت نے بمبئی میں گرفتاری کے تار جاری کر دیا مگر ڈاکٹر مختار انصاری کی کوششوں سے تار کے پہنچنے میں تاخیرہو گئی اور تب تک مولانا جہاز پر سوار ہو چکے تھے۔ اس طرح آپ مجاہدرفقاء مرتضیٰ محمد میاں انصاری، مولانا عزیر گل،مطلوب الرحمٰن، خان محمد کے ساتھ مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ (تحریک شیخ الہند صفحہ 205)مولانا سندھی جب کابل پہنچے تو وہاں سیاسی سرگرمیاں زوروں پر تھیں کابل میں پہلے ہی سے جرمن،ترکی، ہندکے مشن موجود تھیاور حضرت استاد نے جو زمین تیار کی ہے اسے دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر فخر محسوس ہونے لگا کہ میرا انتخاب واقعی درست فیصلہ ہے۔ مولانا سندھی نے مشن سے ملاقات کر انگریز ی ہندپر فوجی حملہ کرنے پر تبادلہ خیال کیا اور آگے چل کر حکومت موقوتہ ہند ” کا قیام عمل میں آیا۔ جس کے صدر راجہ مہیندر پرتاپ وزیر اعظم پروفیسر برکت اللہ بھوپالی، وزیر داخلہ مولانا عبید اللہ سندھی مولانا بشیر وزیر دفاع وزیر خارجہ چمپا کرن پلئی بنائے گئے۔بہرحال مولانا شیخ الہند حجاز میں تحریک کے ذمہ داروں کی کارگزاریوں کا جائزہ لیتے رہے۔ گورنر مکہ مکرمہ غالب پاشا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے لوگوں کو جہاد کی ترغیب اور مولانا محمود الحسن کی تحریک کے ذریعہ کی جانے والی کارروائیوں کی تائید تھی اس معاہدہ کو غالب نامہ” نا دیا گیا۔ یہ دستاویز مولانا میں منصور کے ذریعہ ہندوستان ھبیجنا تھا مگر سی آئی ڈی کو اس کی بھنک لگ گئی تو مولانا محمد میاں منصور انصاری اس کو لے کر افغانستان چلے گئے۔ اس کے بعد مدینہ منورہ آکر وہاں کے گورنر انور پاشا سے ملاقات کر ان کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستحط کرائے جس کی رو سے ہندوستان پر حملہ کی منظوری دے دی گئی۔ اس معاہدہ کو انور نامہ کہا جاتا ہے۔ جو لکڑی کے تحتوں پر لکھ کر ان کا ایک صندوق بنا دیا گیا تھا۔ اس صندوق کو رفیق حاص سید ھادی حسن کے ذریعہ بمبئی کے راستے ہندوستان بھجوایا گیا۔ صندوق کو قلی کے اٹھوایا گیا اور حاجی دین محمد مظفرنگر کے پتہ پر بھیج دیا گیا۔ تفتیش پر ھادی حسن صاحب کے پاس کچھ نہ ملا مگر ھادی حسن صاحب کو گرفتار کر لیا گیا۔کابل میں قیام کے دوران مولانا سندھی نے 9 جولائی 1916ء کو اپنی پوری اسکیم لکھ کر حضرت شیخ الہند کو بھیجنے کے لیے عبد الحق نامی قاصد کے ذریعہ شیخ عبد الرحیم حیدرآباد جو خود مکہ مکرمہ جا کر حضرت شیخ الہند کو یہ دستاویز پیش کرنے والے تھے۔ یہ تحریر زرد رنگ کے ایک چوکور ریشمی کپڑے پر لکھی گئی تھی۔ اس وجہ سے تحریک کا نام ریشمی رومال تحریک ” Silk Letter Movement نام دیا گیا۔ انگریزی حکومت کے دستاویزوں میں مولانا سندھی کو ہی ریشمی رومال تحریک کا اصل بانی قرار دیا گیا ہے( جو حضرت شیخ الہند کی تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں و تدابیر کا ثبوت ہے )۔ 2013ء میں حکومت ہند نے تحریک کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ بہر کیف خفیہ محلمہ کو اس کا سراغ لگ گیااور یہ خط پکڑلیے گئے۔ برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کے جرم میں سیکڑوں لوگوں کی گرفتاریاں ہونے لگی۔ ادھر شریف مکہ کی دغا بازی سے حضرت شیخ الہند اور ان کے رفقاء مولانا وحید احمد فیض آبادی،مولانا عزیر گل، حکیم سید نصرت حسین، مولانا حسین احمد مدنی کو 12 فروری 1917گرفتار کر قاہرہ اور پھر مالٹا جیل بھیج دیا گیا۔ ۔ انگریز حکومت تلملائی ہوئی تھی اس نے مارچ 1919 میں ایک نیا قانون رولٹ ایکٹ پاس کیا جس کے مطابق محض شک کی بنیاد ہر کسی بھی شہری کو گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح بظاہر تو تحریک ناکام ہو گئی مگر تحریک نے ہندوستانی عوام میں ایک نئی روح پھونک دی۔ عالمی جنگ ختم ہو گئی اورایک نئے انداز میں تحریک آزادی داخل ہو گئی۔ ہندو مسلم ایک نئے مظاہرے کے ساتھ انگریزوں کے سامنے برسر پیکار تھے۔ نومبر 1919 میں خلافت کانفرینس کا انعقاد عمل میں آیا۔ مفتی کفایت اللہ نے انگریزوں کے خلاف عدم تعا ون کا فتٰویٰ جاری کیا۔ دسمبر 1919 میں جمیعہ العلماء ہند ” کا قیام عمل میں آیااور کانگریس بھی مجاہدانہ کردار میں سامنے آ گئی۔ پورے ملک میں ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ تحریک آزادی عوامی تحریک بن گئی۔ گاندھی جی افریقہ سے ہندوستان آ گئے موتی لال و جواہر لال نہرو وکالت چھوڑ کر مزید فعال کردار کے ساتھ میدان میں آ گئے۔ تحریک عدم تعاون برپا ہوئی۔ رولٹ ایکٹ کے تحت کانگریس کے دو رہنماوں ڈاکٹر سیف الدین کچلو و ڈاکٹر ستہ پال کو خفیہ طور پر حراست میں لے لیا گیا۔ اس قانون کی مخالفت کے نتیجہ میں جلیاں والا باغ حادثہ پیش آیا۔ آخرحکومت کو زیر ہونا پڑا اور 1922 میں یہ قانون دیگر 22 ایکٹ کے ساتھ واپس لیا گیا۔ مولانا سندھی اپنے مشن پر گامزن رہے 1921ء میں آپ کی صدارت میں کابل میں کانگریس کمیٹی کی تشکیل کی۔ جو آل انڈیا کانگریس کے گیا اجلاس میں ضم کر دیا گیا۔ ستمبر 1924ء کو آپ نے ترکی سے ” آزاد ہندوستان کا دستوری خاکہ ” جاری کیا جس پر پابندی عائد کر دی گئی اور مئی 1925ء میں مولانا پر ملک میں داخلہ پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے بعد سعودی عرب چلے گئے 1939 ء میں ہندوستان واپس۔ 1944 میں آزادی کا یہ قائد اپنے رب سے جا ملا۔

 

Related Articles