اسلام میں حقوق ادا کرنے پر زور
عارف عزیز (بھوپال)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں انسانی زندگی کا ایسا کوئی پہلو نہیں جس کے بارے میں فکری و عملی رہنمائی نہ کی گئی ہو وہ افراد کی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، معاشرتی ہو یا سیاسی، سب کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں، اسی طرح اسلام میں فطرتِ انسانی کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے اور حقوق کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے حتیٰ کہ انسانوں جانوروں، درختوں اور راستوں کا بھی حق ہے مگر اس میں سب سے مقدم حقوق اللہ ہیں جو صرف عبادات تک محدود نہیں بلکہ اس کے لئے حق تعالیٰ شانہ کی مکمل اطاعت ضروری ہے اور اس کے بعد نبی برحق ﷺ کی پیروی لازمی ہے جب اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی برحق ﷺ کی اطاعت ہوگی تو عبادات کا حق ادا ہوگا اور ایسا ہی انسان دوسروں کا حق ادا کرے گا آج اگر انسان صرف اس بات کا عہد کرلیں کہ وہ خدا اور رسول ﷺ کی اطاعت کو اپنا شعار بنائیں گے سب کا حق ادا کریں نیز فطرت یعنی توازن و عدل کو قائم رکھیں گے تو یہ کرۂ ارض جنت کا نمونہ بن سکتا ہے ورنہ یہ دنیا دن بدن مختلف مسائل وآلودگی میں گھرتی جائے گی، جیساکہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے خاص طور پر توازن وعدل کے بغیر تو اس کائنات کا باقی رہنا بھی مشکل ہے قرآن حکیم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے :
’’آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی اس کا تقاضہ یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو‘‘ (سورہ رحمن)
یعنی کائنات میں اللہ تعالیٰ نے جو توازن قائم کیا ہے اسے درہم برہم نہ کرو۔ اس توازن یا میزان کی اہمیت کو جدید تحقیق نے واضح کردیا ہے لیکن آج سے ۱۴ سو برس پہلے نبی امی ﷺ یا اونٹ، گھوڑے اور خچر پر سواری کرنے والے آپ کے جانثار کب جانتے تھے کہ ایک روز ایسا بھی آئے گا جب انسان آسمان پر آواز سے تیز رفتار میں پرواز کرے گا زمین پر اس کی سواریاں دھرتی کے سینہ کو ہی نہیں تھرتھرائیں گی بلکہ دھوئیں کی شکل میں اپنے فضلہ یا آلودگی کو خارج کرکے ماحول کو مسموم بنا دیں گی، پھر اپنی لڑنے جھگڑنے کی سرشت سے مجبور ہوکر یہ خاکی انسان خلا میں فوجی اڈے بنانے کی کوشش کرے گا اور نت نئے جوہری آلات کے ذریعہ نظام کائنات کے توازن اور میزان کو بگاڑنے کے درپے ہو جائے گا۔
کلام الٰہی کی حقانیت کے لئے یہ بات کافی ہے کہ اس نے ۱۴ سو برس پہلے آج کے مسائل سے آگاہی کردی اور انسانوں کو یہ تنبیہ بھی کی تھی کہ خبردار! کائنات کی فطرت و توازن میں خلل نہ ڈالنا، یہ حکم اس لئے بھی دیا گیا کہ زمین وآسمان میں جو کچھ ہے پروردگار عالم نے انسان کے لئے مسخر کردیا ہے اور روز ازل سے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ انسان غیر معمولی ترقی کرے گا ہوا اور پانی پر اس کی حکمرانی ہوگی زمین کی تہہ میں جھانک کر یہ دیکھے گا اور آسمانوں کی سیر پر قادر ہوگا اس وقت اس انسان نے کائنات کی فطرت کو قائم رکھ کر توازن برقرار نہ رکھا تو اپنی تباہی وبربادی کا سامان یہ خود کرے گا۔
اسلام میں انسانوں کے حقوق کے بارے میں توہم اکثر سنتے آئے ہیں لیکن آسمان وزمین کے میزان میں خلل ڈال کر نظام کائنات درہم برہم کرنے کی بھی اس میں ممانعت کی گئی ہے جو مذہب انسان سے حیوان تک اور نباتات وجمادات تک سب کا حق مقرر کرتا ہو اور اسے ادا کرنے کی تاکید کرتا ہو وہ دین فطرت نہیں تو اور کیا ہے؟ اس لئے اسلام میں ہرے بھرے درختوں کو کاٹنے سے منع کیا گیا ہے کھیتوں اور شہروں کو جلانے پر تنبیہ کی گئی ہے راستہ کا حق بتایا گیا ہے کہ اسے آمد ورفت کیلئے کھلا اور صاف رکھو، جو راہ سے روڑے ہٹا دے یا نقصان دہ چیز دور کردے تواس کا بڑا بدلہ ہے جانوروں کو ستانے اور ایذا پہونچانے سے بھی رحمت عالم ﷺ نے انسانوں کو منع فرمایا ہے۔
آج دنیا میں ہر طرف نفسا نفسی کا جو عالم طاری ہے اس کے بنیادی اسباب میں یہ بات شامل ہے کہ انسانوں نے تمام حقوق ادا کرنا چھوڑ دیئے ہیں اگر انسان ایک دوسرے کا حق پوری دیانت داری اور ذمہ داری سے ادا کرنے لگیں اور کائنات کا توازن درہم برہم کرنے سے گریز کریں تو یہ دنیا آج جنت کا نمونہ بن سکتی ہے٭