یادوں کا سفر
مادرِ علمی جامعہ معہد ملت مالیگاؤں میں منعقد اڑسٹھ سالہ اجلاس میں شرکت کی روداد
اثرِ خامہ : سید آصف ملی ندوی
گذشتہ جمعرات مؤرخہ 23ستمبر 2021 کو اس عاجز کو ایک اہم اجلاس میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی، میری مراد ریاستِ مہاراشٹر کی عظیم تاریخی دینی دانش گاہ جامعہ معہد ملت مالیگاؤں میں منعقد کردہ یک روزہ تعلیمی و تربیتی اجلاس برائے فارغینِ معہدِ ملّت مالیگاؤں ہے۔ اس اہم اجلاس میں معہد ملت کی انتظامیہ نے گذشتہ اڑسٹھ سالوں کے دوران فارغ ہونے والے تمام ہی علماء کرام و حفاظ عظام کو اپنی مادرِ علمی میں مدعو کیا تھا۔ اور اس کا مقصد دعوت نامے میں یوں تحریر کیاتھا ‘‘ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر ارکان و اساتذہ معہد ملت نے ضرورت محسوس کی کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ملی فارغین کو جمع کیا جائے اور ایک بار پھر بانیانِ معہد ملت کے بنیادی تصور کے ساتھ نئے عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھا جائے ، جدید فارغین کو قدیم فارغین کی خدمات اور کارگذاریوں سے روشناس کرایا جائے تاکہ معہد ملت کے قیام کے بنیادی تصور پر زمانے کی گرد نہ پڑے اور فارغینِ معہد ملت تازہ دم ہوکر بدستور ملت اسلامیہ کی خدمت کرتے رہیں‘‘۔
سوشل میڈیا کے ذریعے جیسے ہی اس اجلاس کی اطلاع ملی ، اسی وقت سے شرکت کے لئے بال و پر تول چکا تھا، اور اس طرح کیوں نہ کرتا کہ آخر میری مادرِ علمی کا بلاوا تھا، مادرِ علمی سے اس عاجز کو سندِ فضیلت حاصل کئے ہوئے ربع صدی سے زیادہ (تقریباً چھبّیس سال) کا طویل ترین عرصہ بیت چکا ہے ، یوں محسوس ہوتا ہے گویا ایک جگ بیت گیا ہو یا ایک قرن گذر گیاہو۔ معہد سے فراغت کے بعد عالم اسلام کی عظیم الشان ممتاز و مؤقر ترین درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں حصولِ تعلیم کا سلسلہ اور پھر اس کے بعد ممبئی میں سفارت خانہ کویت وغیرہ میں ملازمت اور کاروباری مصروفیات کے سلسلے میں 17 سالہ قیام کے دوران کبھی بھی مادرِ علمی میں حاضری کا موقعہ نہ مل سکا، 2014ء میں ملازمت کو خیرباد کہہ کر اپنے وطن ناندیڑ لوٹ آیا، یہاں آنے کے بعد نسبتاً فرصت کے لمحات میسّر رہیں لیکن اس کو میری حرماں نصیبی ہی کہنا چاہئے کہ مجھے اپنی مادرِ علمی میں حاضری کا موقعہ ہی نہ مل سکا، اب جبکہ اس اجلاس کی سوشل میڈیا کے ذریعے اطلاع ملی اور پھر جب مخدوم زادہ برادرم عابد ملی ندوی اور استاذ الاساتذہ حضرت مولانا ادریس عقیل ملی قاسمی دامت برکاتہم نے فون پر شرکت کی دعوت دی تو لبیک کہتے ہوئے شوق کے پروں سے اڑ کر گلشنِ نعمانی پہنچنے کے لئے تیار ہوگیا۔ اور ایک مختصر سے قافلے کے ساتھ جس میں حافظ محمد سلیم صاحب ملی ، مفتی محمدایوب صاحب ملی قاسمی (قاضی شہر ناندیڑ)، مولانا حافظ عبدالستار صاحب ملی ، حافظ عیسیٰ صاحب آف عثمان نگر موجود تھے، بذریعہ راجا رانی ایکسپریس مالیگاؤں کے لئے روانہ ہوگیا۔
دورانِ سفر میری خوشیوں کی کوئی انتہا نہ تھی ، پورا سفر مسلسل تصورات میں کھویا رہا اور دل ہی دل میں اپنے آپ سے یہ کہتا رہا کہ اجلاس کا یہ دن بڑا ہی مسرتوں بھرا و دلفریب اور ماضی کی حسین یادوں کو تازہ کرنے والا گذرے گا۔ مادرِ علمی کے در و دیوار ، مسجدِ نعمانی کے منبر و محراب اور اس کا پرکشش گنبد، درسگاہ کی مرکزی عمارت ، کلاس روم ، لائبریری اور ہاں یقینا مطبخ سب ہی آنکھوں کے پردہ سیمیں پریکے بعد دیگرے نمودار ہونے لگے اور ان سے وابستہ میری حسین یادیں یاد آنے لگیں۔ اور پھر اس سے بھی اہم بات یہ کہ مجھے اپنے اساتذہ کرام سے ملنے کا شوق رقصِ مجنوں پر ابھار رہا تھا کہ سید آصف ! کل تو اپنے ان قدسی صفات محسنوں کی خدمت میں حاضر ہونے جارہا ہے جنہوں نے تجھ پر اس دنیا میں سب سے زیادہ احسانات کئے ہیں ، تو ان کے احساناتِ عظیمہ کا بدلہ کبھی بھی نہیں چکا سکتا، ان کے فیض سے آشنائی سے قبل توہر طرح کے علوم اور خیر و شر کے امتیاز سے نا بلد تھا،خدایا میرے ان تمام ہی محسن اساتذہ کرام کو اپنی حفظ و امان میں رکھ اور ان سے گلشنِ نعمانی کی باغبانی کا کام یوں ہی خیر و عافیت کے ساتھ لیتا رہ۔ آمین یا رب العالمین۔
ابھی میں اساتذہ کرام کے ان مبارک تصوارت ہی میں کھویا ہوا تھا کہ دفعتاً مجھے یادوں کے ان جھرونکوں سے اپنے ہم جماعت ساتھیوں کے کچھ معصوم تو کچھ شریر، کچھ باوقار تو کچھ نٹ کھٹ چہرے جھانکتے ہوئے نظر آنے لگے۔ یہ ان محبوب دوستوں کے چہرے تھے جن سے آپس میں خوب میل جول تھا ، دل جن سے خوب کھْلے ہوئے تھے۔ یہ سچ ہے کہ ان میں سے بعض دوستوں سے ماضی قریب میں ایک آدھ دفعہ ملاقات ہوچکی ہے، لیکن زیادہ تر دوستوں سے ملے ہوئے چھبیس سال کا طویل عرصہ گذر چکا ہے ، کل جو مادرِ علمی کی آغوش میں بچیّ تھے آج وہ نہ جانے کیسے نظر آتے ہوں گے ، سنا ہے ان میں سے بعض کا اپنے علاقوں میں طوطی بولتا ہے تو بعض کو سکّہ رائج الوقت کا مقام حاصل ہوچکا ہے۔ بہرحال ان ہی خیال آرائیوں کے جھرمٹ میں سفر کٹتا چلا گیا اور ہم منماڑ اور وہاں سے مالیگاؤں پہنچ گئے۔ تمناؤں ، امنگوں اور نشاط سے بھرپور جذبات کے ساتھ جب ہم مدرسے کے احاطے میں داخل ہوئے تو آنکھیں فرطِ مسرت سے اشکبار ہوگئیں ، آخرکیوں نہ ہوتیں کہ میں نے لڑکپن یہیں کھویا ، جوانی یہیں پائی، کتنی بھولی بسری یادیں اس تحریر کے لکھتے وقت تازہ ہوگئیں، آہ کیسی معصومیت تھی، کیا بھولا پن تھا، کس قدر بے خبری کا زمانہ تھا۔ کاش وقت کا پہیّہ الٹا گھوم جائے۔۔ لیکن ہائے افسوس یہ ہو نہیں سکتا۔۔ بہرحال چشمِ نم کے ساتھ جب ہم مدرسے کے احاطے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ استاذ محترم حضرت مولانا زبیر احمدصاحب ملی مدظلہ العالی استقبالیہ میں موجود ہیں، محبت و احترام کے ساتھ حضرت کو سلام کیا، حضرت نے والہانہ استقبال کیا اور دورانِ اجلاس ہم لوگوں کے قیام وغیرہ سے متعلق رہنمائی فرمائی۔ناموں کے اندراج اور دیگر ضروری کاغذی کاروائیوں کی تکمیل کے بعد ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر ہم لوگ مسجد نعمانی پہنچے جہاں اجلاس کی نشستیں رکھی گئیں ہیں، قدیم و جدید ابنائے ملت جوق در جوق مسجد میں آنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے وسیع و عریض مسجدکھچاکھچ بھر گئی۔ پہلی نشست استاذ الاساتذہ حضرت مولانا قاضی عبدالاحد ازہری دامت برکاتہم کی زیر صدارت منعقد ہوئی ، جبکہ اسٹیج پر حضرت مولانا ادریس عقیل ملی قاسمی شیخ الحدیث معہد ملت مالیگاؤں، حضرت مولانا عبدالحمید ملی ازہری، حضرت مولانا سعید صاحب ملی صدر المدرسین معہد ملت مالیگاؤں،مفتی محمدجعفر صاحب ملی استاذ وقاضی شریعت جامعہ اشاعت العلوم اکل کواں، مولانا حامد ظفر ملی استاذ معہد ملت مالیگاؤں، مولانا عمرین محفوظ رحمانی سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر بزرگ علماء کرام موجود تھے۔ اس پروقار نشست میں مقررین کرام نے موجودہ بدلتے ہوئے حالات میں جامعہ معہد ملت اور تحریکِ ملت کو از سرِ نو متحرک ، منظم و فعّال بنانے پر زور دیا, نیز وطن عزیز بھارت کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں ابنائے ملت کو قائدانہ کردار ادا کرنے کی ترغیب دی گئی۔
بعد نماز ظہر دوسری نشست مفسر قرآن حضرت مولانا ادریس عقیل ملی قاسمی شیخ الحدیث معہد ملت کی زیر صدارت منعقد ہوئی ، اس نشست میں جامعہ معہد ملت اور تحریک ملت کو مضبوط و فعّال بنانے سے متعلق چیدہ و چنندہ ابنائے ملت کو اپنے تاثرات و تجاویز پیش کرنے کا موقعہ دیا گیا۔ اخیر میں حضرت مولانا ادریس عقیل ملی قاسمی نے مختصر لیکن انتہائی بصیرت افروز خطاب فرمایا اور آپ ہی کی رقت انگیز دعا پر اس یک روزہ اجلاس کا اختتام عمل میں آیا۔
وقفے کے دوران اور اجلاس کے بعد اپنے ہم جماعت رْفقاء ِدرس ویارانِ با صفا سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، یوں محسوس ہورہا تھا گویا کوئی گنج ہائے گراں مایہ ہاتھ لگ گیا ، تقریباً تمام ہی رفقاء درس کی موجودہ ہیئتِ کذائی بچپن کی حالت سے یکسر مختلف نظر آئی، عمر رفتہ کے ساتھ ساتھ نہ کسی کا رنگ و روغن قائم رہ سکا ہے نہ ہی کسی کے چہرے کی آب تاب، نہ کسی کے زلفوں کی سیاہی برقرار رہ سکی ہے نہ ہی شباب کی رنگینیاں۔ اور ہائے میں یہ کیا محسوس کر رہا ہوں کہ کل تک جو یارانِ بے تکلف تھے آج ان کی بے تکلفیوں کے آگے تکلفات , مقامات , عہدوں اور اسٹیٹسوں کے دبیز حجابات نظر آئے، ایسا لگ رہا تھا کہ زندگی کی تلخیوں اور تجربات نے تمام ہی ساتھیوں کو غیر معمولی سنجیدگی سے روشناس کرادیا ہے۔ بہرحال جن ہم جماعت ساتھیوں سے ملاقات ہوسکی ان میں مولانا یاسین ملی استاذ معہد ملت ، مفتی محمد بابر ملی آف پرتور،مولانا سلیم ومولانا یوسف آف مجرے باڑی، مولانا مطیع الرحمن و مولانا جلیس الرحمن آف مالیگاؤں، مولانا عبداللطیف ملی، مولانا عبدالغفار ملی و مولانا وزیر الدین ملی آف اورنگ آباد، مولانا شوکت ملی و مولانا مظہر ملی آف جالنہ، مولانا ابوبکر ملی آف سْرگانہ، مولانا کلیم ملی آف پالڈی، مولانا عبدالستار ملی و مولانا نثار ملی آف اڑاود قابل ذکر ہیں۔ اپنے ان دوستوں کے ساتھ ماضی کی حسین داستانوں کو چھیڑ بھی نہ سکے تھے کہ روانگی کا وقت قریب آگیا۔