سنہ ہجری کا آغازاور اس کی اخلاقی اساس
اسلام سے پہلے دنیا کی متمدن اقوام میں متعدد تقویم (کلینڈر) رائج تھیں جن کا آغاز کسی بادشاہ کی پیدائش ، وفات یا کسی حادثہ، زلزلے، طوفان اور جنگ سے ہوتا تھا، رومیوں کا کیلنڈر سکندر اعظم کی پیدائش سے شروع ہوتا تھا، ایرانیوں کی ایک جنتری یزدگرد کی تخت نشینی سے اور دوسری اس کی موت سے شروع ہوتی تھی، مسیحی کلینڈر کا آغاز حضرت عیسیٰ کی ولادت سے ہوا، ہندوستان میں بکرماجیت کے نام سے سنہ کا رواج تھا۔
’’اس کے برعکس عربوں کا معاشرہ اتنا متمدن نہیں تھا کہ کسی ایک تقویم کی ضرورت محسوس ہوتی لہذا اوقات وموسم کے شمار اور رات دن کی بول چال میں آسانی کے لئے وہ اپنی قومی تاریخ کا کوئی اہم واقعہ لے کر اس سے حساب لگا لیتے تھے، عام طور پر عربوں کی معلوم تاریخ یا شعری ادب میں عام الفیل کا ذکر ملتا ہے، اس سے مراد وہ سال ہے جس میں شاہ حبشہ ابرہہ نے کعبہ پر لشکر کشی کی تھی، ہاتھیوں کی فوج لے کر وہ بیت اللہ کو منہدم کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اور ابابیل کے ذریعہ اس کے پورے لشکر کو تباہ وبرباد کردیا، اہل عرب اس واقعہ کو بنیاد بناکر حساب کتاب کرنے لگے۔ نبی اکرم ﷺ کی ولادت بھی اسی سال ہوئی لہذا اس واقعہ سے اسے جوڑا جانے لگا اسی طرح حرب فجار کا واقعہ عربوں کے نزدیک ایک اہم واقعہ تھا، جس کا کتابوں میں ذکر ملتا ہے کہ اس کے حوالہ سے ماضی وحال کے درمیان تعین کیا جاتا تھا، مثلاً کسی کی پیدائش یا موت کے سنہ کا شمار کرنا ہو تو کہا جاتا تھا کہ ’’یہ شخص حرب فجار سے اتنے سال پہلے پیدا ہوا یا اتنے برس بعد اس کی موت کا واقعہ پیش آیا‘‘۔
(مفتی خالد محمود مضمون ’’ہجرت کا اہم واقعہ اسلامی سنہ کے آغاز کی بنیاد‘‘ روزنامہ ’’آواز ملک‘‘ وارانسی۳۰ جولائی ۱۹۹۳ء صفحہ ۲)
ظہور اسلام کے بعد بھی عرصہ دراز تک صحابہ کرامؓ نے کسی ایک سنہ کی تعین کی ضرورت نہیں سمجھی بلکہ عہدِ اسلام کے واقعات میں سے کسی ایک واقعہ سے یادداشت کو محفوظ رکھا جانے لگا، مکی عہد کا ایک اہم واقعہ ’’بیعت عقبہ‘‘ تھا جو کچھ ایام تک بطور سنہ استعمال ہوتا رہا، دور مدنی کا ایک اہم مرحلہ ہجرت کے بعد ’’اذنِ قتال‘‘ تھا یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کو اس کی اجازت دینا کہ حالات کا تقاضہ ہو تو اہل کفر کی جارحانہ سرگرمیوں سے اپنے دفاع کے لئے مسلح جدوجہد کریں، یہ حکم سورہ حج کی آیتِ اذان کی ذریعہ ملا جو یقینا اسلام کی تاریخ کا ایک نیا موڑ اور دعوت کے لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل واقعہ تھا، صحابہ کرامؓ اسے ’’سنۂ اِذن‘‘ سے تعبیر کرتے تھے، اسی طرح سورہ برأۃ (سورہ توبہ) بھی اسلامی معاشرہ کے قیام کے بعد دعوت کی اجتماعی شکل اور دین کے قیام نیز اشاعت کے پورے نظام کو بیان کرنے والی پہلی سورت تھی، شاید اسی لئے جس سال یہ نازل ہوئی اس سال کو ’’سنۂ البرأۃ ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا، عہد نبویؐ کا آخری سنہ ’’سنۃ الوداع‘‘ سے موسوم کیا گیا جس میں نبی اکرم ﷺ کے حج کا واقعہ پیش آیا اور وہ ’’ حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے مشہور ہوا، بعض تاریخی روایات سے اس طرح کے دوسرے سنوں کا بھی علم ہوتا ہے مثال کے طور پر ’’سنۃٔ التمحیص‘‘ یا ’’سنۃٔ الاستیناس‘‘ (مولانا خلیل الرحمن سجاد ندوی ماہنامہ الفرقان لکھنؤ نومبر ۱۹۸۳ء صفحہ ۳)
خود بعثتِ نبویؐ یا ہجرت مدینہ بھی اہم واقعات تھے اور تاریخ کی کتب میں ان کے ذریعہ حساب وکتاب رکھے جانے کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ یہ واقعہ بعثتِ نبویٔ کے اتنے سال بعد رونما ہوا یا فلاں شخص ہجرت مدینہ کے اتنے سال بعد مسلمان ہوا، قابل غور پہلو یہ ہے کہ ان تام سنوں کا تعلق ان واقعات سے ہے جو اسلام کی دعوت و تحریک کو پیش آرہے تھے، کسی فرد واحد سے اس کا تعلق نہیں، اسلام جو دیگر مذاہب کے برخلاف ہیرو پرستی اور شخصیت سازی کی نفی کرتا ہے یہ اس کی اسی مزاجی خصوصیت کا نتیجہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی مکی زندگی نہایت صبر آزما حالات سے دوچار رہی جس کے دوران تیرہ سال تک اللہ کے رسول کی پوری توجہ اسلام کی دعوت واشاعت پر مرکوز رہی، بے سروسامانی اور کسمپرسی کے باوجود رسول پاک ﷺ ایمان کی دعوت لیکر مکہ اور اس کے اطراف کی گلی کوچوں میں پھرتے رہے اور اپنے مٹھی بھر جاں نثاروں کے ساتھ اہل مکہ کے مظالم کا سامنا کرتے رہے۔ ہجرت کے بعد بھی حالات زیادہ بہتر نہیں ہوئے ایک طرف اسلام کی اشاعت اور دوسری طرف کفار مکہ سے براہ راست دشمنی نیز یہودی ونصاریٰ کی ریشہ دوانیوں نے کسی دوسرے کام کی طرف توجہ دینے کی مہلت نہیں دی، جہاد وقتال کی اجازت ملنے کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوگیا، صلح حدیبیہ کے بعد مصائب میں کچھ کمی ہوئی تو رسول اکرمؐ نے جزیرۃ العرب سے باہر دوسرے ملکوں میں خطوط وپیغام ارسال کرکے اسلام کی دعوت کو عام کیا اور فتح مکہ کے بعد وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا، ان جملہ مصروفیات کی وجہ سے آنحضرت ﷺ بہت سے امور کی طرف توجہ مبذول نہ فرماسکے اور ان کی تکمیل حضرات خلفائے راشدین کے عہد میں ہوئی جن کے طریقہ پر عمل کرنے کو رسول مقبول ؐ لازم قرار دے چکے تھے۔ آپ کا ارشاد ہے:
’’تم پر میری سنت اور خلفائے راشدین جو ہدایت یافتہ میں ہیں ان کی سنت پر عمل کرنا لازم ہے اسے دانتوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑو‘‘
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نبی پاک کے چھوڑے ہوئے متعدد امور کی تکمیل فرمائی لیکن اسلامی تقویم کے آغاز کی طرف آپ کی توجہ مبذول نہ ہوسکی، آپ کا عرصہ خلافت نہایت مختصر تھا، جس کے دوران منکرینِ زکوٰۃ کے فتنہ سے مقابلہ اور اس کے بعد روم وایران کے خلاف لشکر روانہ کرنے پر زیادہ توجہ رہی ، خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں کئی دیگر ممالک اسلامی سلطنت میں داخل ہوئے تو وہاں گورنروں کا تقرر ہوا اور ان کو دربارِ خلافت سے ہدایت نامے جاری ہونے لگے، اور نامہ وپیام کا سلسلہ بڑھ گیا۔ اسی زمانہ میں روم سے حضرت عمرؓ کو ایک خط موصول ہوا جس پر عیسوی تاریخ اور سنہ درج تھا، اس کا جواب دیتے وقت انہیں تاریخ وسنہ کی ضرورت محسوس ہوئی، ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے امیر المومنین حضرت عمرؓ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے ہمیں جو تحریریں ملتی ہیں اس میں تاریخ و سنہ نہ ہونے کی بناء پر اکثر اندازہ نہیں ہوپاتا کہ یہ کس وقت کی لکھی ہوئی ہیں اور اس لئے بعض اوقات ان پر عمل درآمد میں کافی دقت پیش آتی ہے، اسی عرصہ میں حضرت عمرؓ کے پاس ایک مقدمہ سے متعلق تحریر پہونچی جس میں صرف شعبان لکھا ہوا تھا کوئی سنہ تحریر نہ ہونے سے آپ کو یہ سمجھنے میں پریشانی ہوئی کہ یہ کس سال کے شعبان سے متعلق ہے، اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی ایک واقعہ کو نقطہ آغاز قرار دے کر سرکاری طور پر سنہ کا درجہ دے دیا جائے یعنی وہاں سے باقاعدہ اسلامی تقویم (کلینڈر) کا آغاز ہو، حضرت عمرؓ نے مشورہ کے لئے صحابہ کرامؓ کو جمع کیا جن کی مختلف آراء سامنے آئیں۔ ان میں یہ رائے بھی تھی کہ رسول اللہ ؐ کی ولادت کو اسلامی تقویم کا آغاز قرار دیا جائے، ایک رائے آپؐ کی بعثت کے بارے میں تھی بالآخر حضرت علی کرم اللہ وجہ کی رائے کو حضرت عمر فاروقؓ نے قبول کیا اور فیصلہ ہوا کہ اسلامی جنتری کو رسول پاکؐ کی ہجرت کے سال سے شروع کیا جائے ، فاروق اعظمؓ کے اس فیصلہ کو امت اسلامیہ نے اس صدق دلی سے قبول کیا کہ آج تک اس میں ترمیم و تنسیخ کی ضرورت کسی معتدل مزاج مسلمان کو بھی محسوس نہیں ہوئی۔
یہ فیصلہ امت مسلمہ کے مزاج کے عین مطابق تھا جس کے تحت فتح واقبال مندی کے تاریخ اور واقعات کو نظر انداز کرکے صحابہ کرامؓ نے بیچارگی اور درماندگی سے اپنی تاریخ شروع کرنا مناسب سمجھا، دنیا کی دوسری قومیں اپنے برے دن بھلا کر فتح کو یاد رکھنا چاہتی تھیں لیکن مسلمانوں نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی شکست کو ہر دم پیش نظر رکھا یقینا ان کی سمجھ دنیا کی دیگر اقوام کے برعکس لیکن اس ذوق، مزاج اور شعور کے عین مطابق تھی جس کو سنت نبوی اور اس کی تعلیمات نے ان کے اندر پیدا کرنا چاہا تھا۔
یوں تو صلح حدیبیہ، حجۃ الوداع اور فتح مکہ بھی اسلامی اتریخ کے اہم واقعات ہیں جن سے شخصیت پرستی کی نہیں اسلام کے سیاسی غلبہ کی نشاندہی ہوتی ہے لیکن یہ تینوں واقعات بھی ہجرت نبوی کے نتائج میں شامل ہیں، عظمتِ اسلامی کی ابتداء کے لئے تاریخ کو ہجرتِ رسولؐ کی طرف لوٹنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اعلانِ نبوت اور غزوہ بدر جیسے واقعات کو نظر انداز کرکے صحابہ کرامؓ کی نظر انتخاب ہجرت پر جاکر ٹھہری جسے قرآن حکیم کی سورۃ برأۃ میں بیان کیا گیا ہے، یہ سورہ اگرچہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی جس کا مقصود اسلام کے مکمل غلبہ کے بعد ہجرت نبوی کی اخلاقی فتح مندیوں کویاد دلانا اور یہ ظاہر کرنا تھا کہ اس سیاسی غلبہ کی روح حقیقت میں اخلاقی غلبہ ہے جس کے آگے سیاسی انقلاب کوئی حیثیت نہیں رکھتا، سطحی نظر میں ہجرت کا واقعہ آنحضرتؐ اور صحابہ کرام کی مظلومیت وپسپائی کی یادگار ہے لیکن فی الحقیقت یہ واقعہ اسلام کی فتح کا آغاز ہے، مسلسل تیرہ سال تک اسلام تلوار کے زیر سایہ اپنے اخلاقی اصولوں کی تبلیغ واشاعت کرتا رہا، ایک طرف مادی قوت وصلاحیت کا زبردست طوفان تھا تو دوسری جانب اسلام کی برتری تھی، لات وعزیٰ کے پجاری اپنی عددی اکثریت پر نازاں تھے جبکہ اسلام کے چند وفادار خدا کی طاقت ونصرت پر بھروسہ کئے ہوئے تھے، ان کا ایمان مصائب کی بھٹی میں تپ کر کندن بن گیا تو اس کھرے سونے کی چمک کی طرف اہل مدینہ دیوانہ وار کھینچنے لگے اور انہوںنے رسول مقبول ﷺ کو دعوت دی کہ آپؐ مدینہ آئیں اور ہماری قیادت فرمائیں، اس طرح ہجرت مظلوموں کی نہیں مدینہ کی فتح کی یاد گار بن گئی، حضرت عائشہ صدیقہؓ کے الفاظ میں:
’’مدینہ کو تلوار نے نہیں قرآن نے فتح کیا ہے۔‘‘
کسی قوم کی خوش اقبالی کا اندازہ لگانے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے گزرے ہوئے کن واقعات کی یاد تازہ رکھنا چاہتی ہے ، یادگار کے لئے واقعات کا انتخاب اس قوم کی ذہنی افتاد وارتقاء کا پیام دیتے ہیں، اسلام جو فتح وشکست کا ایک منفرد معیار رکھتا ہے اس کے نزدیک سب سے بڑی فتح انسانوں پر قبضہ کرنا نہیں دلوں کی آبادیوں اور روح کی اقلیموں کو سر کرنا ہے گویا ؎
’’جودلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ‘‘