اسلام ہندوستان میں تلوار سے نہیں پھیلا
عارف عزیز (بھوپال)
مذہب اسلام کو ایک جارح مذہب کی حیثیت سے پیش کرنا بعض حلقوں کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے، خاص طورپر ایک ایسے وقت میں جب فرقہ پرستی کے جنون کی آندھی پورے ملک میں چل رہی ہے اور دلوں میں نفرت وکدورت کے طوفان اٹھائے جارہے ہیں اسلام کو ایک جارح مذہب اور مسلمانوں کو حملہ آور قرار دینے سے تنگ نظر عناصر کا یہی مقصد ہے کہ اسلام کو تلوار سے پھیلنے والا مذہب اور مسلمانوں کو حملہ آور ثابت کرکے ان کے خلاف اکثریتی فرقہ کی رائے کو متاثر کیا جاسکے۔
حالانکہ حققیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اسلام، ہندوستان میں فاتح مذہب کی حیثیت سے ہرگز داخل نہیں ہوا بلکہ ایک تبلیغی مذہب کی حیثیت سے وارد ہوا ہے مہم جو مسلمان لشکریوں کی درۂ خیبر پار کرکے ہندوستان میں آمد سے بہت پہلے حتیٰ کہ سندھ میں محمد بن قاسم کی آمد سے بھی قبل اسلام کی روشنی سرزمین ہند پر پڑھنے لگی تھی یہ شرف جنوبی ہند کو حاصل ہے کہ اسلام کے آفتب کی پہلی کرن وہاں سے اس وقت پھوٹی تھی جب عرب تاجر مالا بار کے ساحلی علاقوں میں بسلسلہ تجارت آنے جانے لگے تھے، ان کی کشتیں مدراس، کیرالا، گجرات اور سندھ کے ساحلوں میں لگنے لگیں تھیں، بعد میںکچھ عرب تاجروں نے جنوبی ہند میں اپنی چھوٹی موٹی بستیاں بسا لیں، ہندو راجائوں کی طرف سے انہیں نہ صرف رہنے سہنے کے لئے زمین دی گئی بلکہ ان کے نئے مذہب اسلام کے مطابق انہیں عبادت کرنے کی بھی آزادی فراہم کی گئی، یہ اسلام کا ابتدائی دور اور پہلی صدی کا زمانہ تھا، اس کے بعد شمال کی راہ سے مسلمانوں کی آمد ورفت شروع ہوئی اور بغداد میں خلافت عباسیہ سے ہندوستان کے تعلقات فروغ پانے لگے دوسری طرف صوفیائے کرام کی آمد سے دعوت وتبلیغ کا جو کام یہاں شروع ہوا اس نے اسلام کے ہندوستان میںپھیلنے میںکافی معاونت کی۔
اسلام اگر ہندوستان میں فاتح کی تلوار بن کر داخل ہوا ہوتا تو یہاں کی آبادی کا غالب حصہ آج مسلمان ہوتا اور یہ صدیوں سے مسلم اکثریت کا ملک کہلاتا مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ صوفیائے کرام کے علاوہ شایدہی کسی مہم جو کو ہندوستان میں اسلام پھیلانے سے دلچسپی رہی ہو وہ تو اسلام کی خوبیاں بالخصوص اس کی وحدانیت، جمہوریت، انسانی اخوت اور مساوات کا نتیجہ ہے کہ مقامی آبادی نے ان کو دیکھا وسمجھا تو ان کا دل اس کی طرف کھینچتا ہی چلا گیا اور وہ سماج جو ذات پات کی بنیاد پر مختلف ٹکڑوں میں تقسیم تھا اور جہاں ایک جیسے انسانوں کو پاک اور ناپاک میں تقسیم کردیاگیاتھا ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک روا رکھا جارہا تھا، اسلام کے مصلحوں کے ساتھ ایک نئی تہذیب اپنی پوری تابانی کے ساتھ ہندوستان میں آئی تو یہی لوگ اس کی طرف راغب ہوتے گئے، انہیں اسلام کے پیغام توحید میں اپنی نجات نظر آنے لگی اور وہ اسلام کے آغوش میں پناہ لینے لگے۔
جن مسلم فاتحین کا اسلام اورمسلمانوں کے مخالف آج حوالہ دیتے ہوئے نہیں تھکتے ان کی ہندوستان میں آمد تو کافی بعد کا واقعہ ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلم فاتحین کے ہندوستان میں داخلہ سے اقتدار کی جو لڑاجیاں چھڑیں انہوں نے اسلام کی تبلیغ اور قبولیت عام کو ہی سب سے زیادہ نقصان پہونچایا کیونکہ ان مسلم فاتحین اور سلاطین کو مذہب کے مقابلہ میں اپنی حکومت وقیادت سے زیادہ دلچسپی تھی اسی لئے ان کا بیشتر وقت جنگی تدابیر میں صرف ہوا۔
اغیار کا یہ کہنا بھی نہایت غلط ہے کہ اسلام ایک بیرونی مذہب ہے کیونکہ اسلام کا پیغام صرف سرزمین عرب کے واسطے نہیں بلکہ سارے عالم کے لئے اس میںہدایت پائی جاتی ہے، جب اسلام کا یہ پیغام ہندوستان پہونچ گیاا ور یہاں کے لوگوںنے اسے دل جمعی کے ساتھ قبول کرلیاتو وہ ہندوستانی مذہب بن گیا اور خدا تو نہ ہندوستانی ہے نہ عربی اور نہ ایرانی بلکہ وہ رب العالمین ہے، اسی لئے اسلام کا پیغام بھی آفاقی ہے اور قیامت تک روئے زمین کے انسانوں کے لئے اب یہی دینِ آخر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مکمل کردیا اور انسانوں کے لئے اپنی بے پایاں نعمت قرار دیا ہے۔٭