گناہوں پر ندامت ہے مگر رغبت نہیں جاتی
حافظ میر ابراھیم سلفی
بندہ مومن تاحیات نفس کے خلاف جہاد کرتا رہتا ہے جو کہ افضل ترین جہاد ہے۔ کبھی نفس مومن پر غالب آجاتا ہے تو کبھی مومن نفس کو مغلوب کردیتا ہے۔حقیقتاً یہ نہ تھمنے والی کشمکش ہے۔بندہ مومن جب تک ایمانی و روحانی تربیت کرتا رہے گا، نفسانی خواہشات اسے عاجز نہیں کرسکتیں۔نفس کا شر شیطان کے شر سے اغلب ہے۔اسی لئے نبی کریم ؐ خطبات جمعہ کے موقع پر نفس کے شر سے پناہ طلب کرتے تھے۔ نفس انسان کی کمزوری سے واقف ہے اور عموماً وہ اسی کمزوری کے ذریعے انسانی روح پر مسلط ہوتا ہے۔ معاصی کے اندر ایک مٹھاس پائی جاتی ہے جو انسان کو عبادات کی لذت سے محروم کر دیتا ہے۔سلف صالحین بڑے اہتمام کے ساتھ روحانی تربیت پر دھیان دیتے۔کثرت گناہ انسان کی آخرت کو تباہ کردیتے ہیں لیکن ساتھ ہی دنیاوی حیات پر بھی ان کے مہلک اثرات پڑتے ہیںہیں جن کا ذکر اختصاراً آرہا ہے۔
(۱)آلام و مصائب میں گرفتاری : اللہ رب العزت اپنے محبوب اور مقرب بندوں کو مختلف مصائب کے ذریعے آزماتا ہے لیکن ان مصائب کی وجہ سے بندہ مومن رب سے دور نہیں ہو جاتا بلکہ اللہ سے قریب تر ہوتا ہے۔ عبادات میں ذوق و شوق بڑھ جاتا ہے۔ خشوع و خضوع میں برکت پیدا ہوجاتی ہے۔ فکر آخرت انسان کے دل پر طاری ہو جاتی ہے۔ لیکن جب اللہ عزوجل کی طرف سے گناہوں کی پکڑ آجاتی ہے تو گناہگار انسان بکھر جاتا ہے۔ اس کے اقدام منشیات کی طرف، غیر شائستہ راہوں کی طرف چل پڑتے ہیں۔جب بندہ مصائب و مشکلات میں گرفتار ہو جائے تو اسے اپنے نفس کی اصلاح کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بنی آدم کے ہاتھوں کی کمائی ہے جس کا صلہ انہیں مل رہا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ (ترجمہ)’’اور تمہیں جو مصیبت پہنچی ،وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرمادیتا ہے‘‘۔(القرآن)
(۲) سوء خاتمہ : پوری دنیاوی حیات کے نیک اعمال کا دارومدار انسان کے خاتمے پر ہوتا ہے۔ سکرات کی کیفیت میں وہی انسان نفس کے مقابلے میں فتح حاصل کرسکتا ہے ،جس کا دل "قلب سلیم” ہو۔ جس دل پر گناہوں کی ، گمراہی کی مہر نہ لگی ہو۔ سلف صالحین کی سیرت پڑھ کر احساس ہوجاتا ہے کہ عبادات میں اجتہادات کے باوجود ان کے دل رقیق تھے،انہوں نے نفس کو اپنا غلام بنا لیا تھا لیکن پھر بھی فکر دامن گیر تھی کہ سکرات کے لمحات کس طرح پار کرلیں۔موت کے وقت حالت نزاع میں باطن کے احوال ظاہر ہوجاتے ہیں۔ایمان، کفر، نفاق، فسق۔ جس دل میں جو ہو، زبان پر جاری ہوجاتا ہے۔ اسی لئے علماء رقمطراز ہیں کہ، ’’ومن آثار الذنوب والمعاصي أيضا أنها سبب لسوء الخاتمة‘‘۔
(۳) دل مردہ ہو جاتے ہیں : معروف و منکر کی پہچان، حق و باطل کی معرفت، حلال و حرام کی تفریق دل کی حیات پر منحصر ہے۔ شرعی نصوص سے ثابت ہے کہ دل کی حیات اللہ کی یاد میں پوشیدہ ہے۔ جب بندہ رب العزت سے دور ہوجاتا ہے، دل کی حیات دھیرے دھیرے زائل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔خلاصہ کلام یہی ہے کہ کثرت ِگناہ دِل کو سیاہ کردیتے ہیں۔ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے معروف ابیات ملاحظہ کیجئے: (ترجمہ(:’’میں نے دیکھا ہے کہ کثرت گناہ دلوں کو مردہ کرجاتے ہیں اور انسان کے مقدر میں ذلت و رسوائی کے مؤجب بن جاتے ہیں۔ ترک معاصی میں دلوں کی حیات ہے اور بندہ مومن کے لئے خیر اسی میں ہے کہ وہ نفس کی مخالفت کرتا رہے ‘‘۔
(۴)کثرت گناہ قرض ہیں : قرض کی ادائیگی لازم ہے۔ اسی طرح انسان جب اللہ رب العزت کی نافرمانی میں گمراہ ہوجاتا ہے، تو دنیا کی زندگی کے اندر ہی اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی طرح اس کا بدلہ لے لیتا ہے۔ سیدنا فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا قول ہے کہ، (ترجمہ)’’ جب بھی میں کوئی گناہ کرتا ہوں میں اسکی سزا اپنی زوجہ اور اپنی سواری میں دیکھتا ہوں یعنی وہ میری اطاعت میں نہیں رہتے‘‘۔جب بندہ مومن اللہ کی اطاعت میں نہ رہا تو اسکے زیر نگران کیسے اسکی اطاعت کریں گے؟ یہ لامحال ہے۔
(۵) مخلوق کے دل میں نفرت : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما و دیگر اسلاف سے منقول کے کہ گناہوں کی سزا پانچ طرائق سے مل جاتی ہے۔ (۱) چہرے کی سیاہی (۲) دلوں کی ظلمت (۳) رزق میں تنگی (۴) قبر کی وحشت (۵) مخلوق کے دل میں نفرت۔ اللہ تبارک وتعالی کی سنت ہے کہ وہ صالحین کی محبت مخلوق کے قلوب میں ڈال دیتا ہے اور فاسقین کی نفرت مخلوقات کے دلوں میں راسخ کردیتا ہے، جب تک وہ توبہ نہ کرے اور اپنی بداعمالیوں سے رجوع نہ کرے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا معروف قول ہے کہ (ترجمہ)’’ مصائب نازل نہیں ہوتے مگر گناہوں کے سبب، اور یہ عذاب رفع نہیں ہوجاتے مگر توبہ کے سبب‘‘۔
(۶) رزق میں تنگی : بے روزگاری کی ایک بنیادی وجہ رب العباد کی نافرمانی بھی ہے۔ الصادق الامین پیغمبر نبی کریم ﷺ نے فرمایا، (ترجمہ)’’ بے شک ایک شخص گناہوں کی سبب رزق سے محروم کردیا جاتا ہے، اور تقدیر نہیں بدل سکتی مگر دعا کی سبب اور عمر میں زیادتی نہیں ہوسکتی مگر نیکی کے سبب‘‘۔(رواه السيوطي، في الجامع الصغير)
(۷) نور علم سے محرومی : گناہگار دل میں علم محفوظ نہیں رہتا۔ علم اللہ تعالیٰ کا نور ہے جس کے تحفظ کے لئے دل کا خبائث سے پاک ہونا لازمی ہے۔ علم نافع تب فائدہ دے سکتا ہے جب بندہ مومن صغائر و کبائر منکرات و محرمات سے تحذیر اختیار کرلیں۔ سیدنا امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے تلمیذ خاص سیدنا امام شافعی رحمہ اللہ کو نصیحت کرکے فرمایا،( ترجمہ)’’ میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل کو علم و عرفان کے نور سے زینت بخشی ہے، پس اس نور کو گناہوں کی ظلمت سے بھجا نہ دینا‘‘۔
(۸) جسمانی کمزوری : کثرت گناہ روح کے ساتھ ساتھ جسم کو بھی زخمی کرجاتے ہیں۔سیدنا امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے، ’’اذکار صباح کا ورد کرنے سے مجھے جسمانی و روحانی قوت حاصل ہو جاتی ہے‘‘۔ قرآنی و مسنون اذکار میں عجیب و اعلیٰ فوائد پوشیدہ ہیں۔ اے طالب حق! ان موتیوں کو تلاش کر۔
(۹) آسمانی و زمینی قہر : جب انس و جن شریعت الہٰی کے حدود کو پامال کر جائیں، تب زمین بھی دشمن اور فلک بھی مخالف ہوجاتا ہے۔ اللہ کی نافرمانی، زمینی آفات، فضائی عذاب، مؤجب امراض کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔
(۱۰) زوال نعمت : اہل بصیرت جانتے ہیں کہ اللہ کی عطاکردہ نعمتیں گناہوں کی سبب زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔اللہ کی دی ہوئی مہلت بنی آدم کو غفلت میں نہ ڈال دے۔ نبی کریم ؐ دعا کیا کرتے تھے کہ، (ترجمہ(:’’اے اللہ! میں تیری نعمت کے زائل ہونے سے، تیری دی ہوئی عافیت کے پھر جانے سے، تیرى ناگہانی گرفت سے، اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے تيری پناہ مانگتا ہوں‘‘۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ روئے ارض پر رونما ہونے والے فسادات پر غور و تدبر کیا جائے۔انفرادی سطح سے شروع کرکے اجتماعی زندگی کو گناہوں کی نحوست سے پاک کیا جائے۔ اللہ سے دعا ہے کہ علم نافع کے ساتھ عمل صالح کی توفیق عنایت کریں۔آمین یا رب العالمین