انڈیا کے خلاف 2007 ورلڈ ٹی ٹوئنٹی فائنل میں اس شاٹ کی یادیں جسے کوئی بھلا نہیں پایا:مصباح الحق
کراچی،ستمبر۔مصباح الحق اردگرد کے ماحول سے بے خبر گھٹنے ٹیکے، بلے پر سر ٹکائے مایوسی کے عالم میں پچ پر بیٹھے ہوئے تھے، اور شاید یہی سوچ رہے تھے کہ جس شاٹ پر وہ کبھی آؤٹ نہیں ہوئے، آج کیسے ہو گئے۔وانڈررز سٹیڈیم میں اس وقت دو مختلف کیفیات کو باآسانی محسوس کیا جا سکتا تھا۔یہ 24 ستمبر 2007 تھا اور کرکٹ کی دنیا کے پہلے آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل میں مقابلہ تھا پاکستان اور انڈیا کا۔ شاید اس سے بڑا سٹیج کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔دونوں طرف کے تماشائیوں کے جوش و خروش کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے جو اپنے آخری اوور میں نقطہ عروج پر جا پہنچا تھا۔ایسے میں میڈیم پیسر جوگیندر شرما آخری اوور کروانے کے لیے اپنے رن اپ پر کھڑے ہوئے۔ ان کو یہ اوور ملنا بھی اکثر شائقین کے لیے اچھنبے کی بات تھی۔ پاکستانی ٹیم جیت سے صرف 13 رنز کی دوری پر تھی اور مصباح الحق کی شکل میں امید کی کرن موجود تھی۔یہ مصباح الحق ہی تھے جو ذمہ دارانہ بیٹنگ کے ذریعے 158 رنز کے تعاقب میں اْتار چڑھاؤ کا شکار ہونے والی پاکستانی ٹیم کو آخری اوور تک لے آئے تھے۔جوگیندر شرما کی پہلی گیند وائیڈ ہو گئی۔ اگلی گیند پر کوئی رن نہیں بنا لیکن اس سے اگلی گیند پر مصباح الحق نے ایک زور دار شاٹ کے ذریعے سائٹ سکرین کی طرف چھکا مار دیا۔اس طرح پاکستانی ٹیم کو چار گیندوں پر صرف چھ رنز درکار تھے۔ڈگ آؤٹ میں بیٹھے کوچ جیف لاسن اور پاکستانی کھلاڑیوں کو جیت سامنے نظر آ رہی تھی لیکن اس وقت بھلا کون سوچ سکتا تھا کہ یہ جیت شکست میں بدل جائے گی۔پھر تیسری گیند پر وہ ہوا جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ شرما کی گیند پر مصباح الحق نے پیڈل سوئپ شاٹ کھیلا لیکن گیند باؤنڈری کے بجائے شارٹ فائن لیگ پر کھڑے شری شانت کے ہاتھوں میں چلی گئی اور انڈیا پانچ رنز سے یہ میچ جیت گیا۔آج اس میچ کو 14 سال بیت چکے ہیں لیکن وہ میچ کھیلنے والی پاکستانی ٹیم کا کوئی بھی کھلاڑی اور شاید پاکستان اور انڈیا میں کرکٹ کا کوئی بھی مداح اس مخصوص لمحے کو نہیں بھول سکا ہے، اور مصباح الحق کے لیے تو اسے آسانی سے بھلا دینا انتہائی مشکل ہے۔مصباح الحق نے بی بی سی اْردو سے بات کرتے ہوئے اس میچ کے ان تمام لمحات پر اظہارِ خیال کیا ہے جن کے حوالے سے کرکٹ کے مداحوں کے ذہنوں میں سوالات موجود ہیں۔مصباح کہتے ہیں کہ اس شکست پر مایوسی پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے اور رہے گی کیونکہ آپ جتنی مرضی کوشش کر لیں اصل چیز جیت ہوتی ہے۔ جب آپ اس لائن کو عبور کرتے ہیں تو اس وقت احساسات مختلف ہوتے ہیں۔‘مصباح الحق اپنی مایوسی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ماضی میں رہ کر جینے والوں میں سے نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’میں بہت مایوس تھا کیونکہ آپ نہیں چاہتے کہ آپ کی ساری محنت پر پانی پھر جائے۔ میں میچ کو اس مقام پر لے آیا تھا جہاں پتہ تھا کہ یہ ہمارے ہاتھ میں تھا، اور وہ ہاتھ سے نکل جائے تو یقیناً یہ بات بڑے دکھ کی بات تھی۔‘’آپ ساری زندگی ماضی میں نہیں رہ سکتے، جو چیز گزر گئی وہ گزر گئی۔ افسوس ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے اثر سے نکلنا اور آگے بڑھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔‘
’پیڈل سوئیپ شاٹ پر پہلے کبھی آؤٹ نہیں ہوا تھا‘:یہ شاٹ جیسے کرکٹ کی تاریخ میں امر ہو گئی۔ کرکٹ کی دنیا میں ویسے بھی یہ شاٹ خاصی کم کھیلی جاتی تھی لیکن مصباح اس شاٹ سے اپنی اْنسیت کی ایک الگ کہانی سناتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ آج تک یہ کہتے ہیں کہ میں نے وہ شاٹ کھیل کر غلطی کی تھی جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جس پیڈل سوئیپ شاٹ پر میں آؤٹ ہوا اس سے پہلے میں کبھی اس پر آؤٹ نہیں ہوا تھا۔ یہ میرا بہت ہی پکا شاٹ تھا۔‘مصباح نے یہ شاٹ اسی ورلڈ کپ میں بہت مرتبہ کھیلا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر فیلڈر فائن لیگ پر پیچھے ہوتا تھا تو اسی شاٹ سے سنگل لے لیتا تھا، جیسا کہ میں نے آسٹریلیا کے خلاف میچ میں کیا تھا۔‘مصباح الحق بتاتے ہیں کہ ’میں سوچ رہا تھا کہ پانچ رنز برابر کے لیے بنانے ہیں لہٰذا میں وکٹ کیپر کے اوپر سے کھیل کر چار رنز حاصل کر لوں گا۔’جس کے بعد اگر وہ فیلڈر پیچھے رکھیں گے تو میں سنگل لے سکتا ہوں اور اگر وہ فیلڈر اوپر لے آئیں گے تو میں گیند اوپر سے نکال دوں گا۔
’آخری اوور تک نوبت نہ آتی اگر۔۔۔‘:اس میچ کا خلاصہ بیان کریں تو انڈیا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور 20 اوورز میں 157 رنز بنائے۔ انڈیا کی جانب سے گوتھم گمبھیر نے سب سے زیادہ 75 رنز سکور کیے۔ جبکہ پاکستان کے عمر گل نے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔پاکستان کو اننگز کے آغاز میں محمد حفیظ اور کامران اکمل کا نقصان اٹھانا پڑا لیکن سیمی فائنل کے ہیرو عمران نذیر نے جارحانہ انداز اپنائے رکھا۔ پھر عمران نذیر رن آؤٹ ہوئے تو میچ کی شکل تبدیل ہو گئی۔ایک وقت پر پاکستان کے 77 رنز پر چھ کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے اور پھر مصباح کریز پر آئے اور میچ کو اس پوزیشن پر لے آئے کہ آخری اوور میں 13 رنز درکار تھے۔مصباح الحق کہتے ہیں کہ ’آج جب ہم اس میچ کو یاد کرتے ہیں تو سب اسی آخری اوور کو یاد کرتے ہیں جس میں میں آؤٹ ہوا تھا حالانکہ اس میچ میں کئی ایسے لمحات بھی آئے تھے جو اہم تھے جو اس وقت کسی نے نہ سوچے ہوں لیکن بعد میں آپ سوچتے ہیں کہ اگر یہ چیزیں ٹھیک ہو جاتیں تو صورتحال مختلف ہوتی۔‘مصباح الحق یاد دلاتے ہیں کہ ’عمران نذیر کا رن آؤٹ ہو جانا جس نے صرف 14 گیندوں پر 33 رنز بنا رکھے تھے۔ سیمی فائنل میں اس نے جارحانہ نصف سنچری بنائی تھی۔‘’پھرغلط وقت پر وکٹیں گرنا۔ شاہد آفریدی کا پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہونا۔ سہیل تنویر کا دو چھکے لگانے کے بعد بولڈ ہو جانا لیکن ان سب باتوں کے باوجود میں اس وقت بہت پْرامید تھا کہ آخری اوور میں 13 رنز بن جائیں گے۔‘مصباح الحق کہتے ہیں اسے آپ میری ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کہہ سکتے ہیں کہ میں نے گیند زیادہ قریب آنے دی جس کی وجہ سے وہ شاٹ دور جانے کے بجائے اوپر کی طرف چلا گیا۔‘
’لوگوں کی نظروں میں قصوروار‘:مصباح نے یہ شاٹ تو کھیل دی، لیکن یہ لمحہ ہمیشہ کے لیے پاکستان میں کرکٹ کے مداحوں کے دلوں میں اتر گیا۔ اکثر ان پر تنقید کرتے دکھائی دیے، کچھ کے نزدیک یہ شاٹ کھیلنی ہی نہیں چاہیے تھی تو کچھ نے کہا کہ جیتا ہوا میچ ہروا دیا۔مصباح الحق بھی اس تنقید سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میچ ہارنے پر پوری ٹیم مایوس تھی، مجھے زیادہ دکھ تھا کہ اتنا قریب آ کر بھی ہم نہ جیت پائے۔‘اس موقع پر ڈگ آؤٹ اور پھر ڈریسنگ روم میں ساتھی کھلاڑیوں نے مصباح الحق کو حوصلہ دیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم اشرف بھی اس وقت وہیں موجود تھے انھوں نے بھی مجھ سے یہی کہا کہ آپ نے اپنی پوری کوشش کی، کوئی بات نہیں کھیل میں ایسا ہوتا ہے۔‘مصباح الحق کا کہنا ہے کہ ’آپ کے ساتھی کرکٹرز تو آپ کی ذہنی حالت کو سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن عام طور پر بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اس طرح کی صورتحال کو سمجھتے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر لوگ آپ کو ہی قصوروار سمجھتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ میچ تو آپ کا تھا ہی نہیں۔ لوگ یہی سوچتے ہیں کہ اس نے میچ ہروا دیا۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ میچ اس مرحلے تک پہنچا کیسے؟‘مصباح الحق کہتے ہیں ’اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی کچھ لوگ یہی کہتے ہیں کہ سیدھے چھکے لگ رہے تھے تو اس شاٹ کی کیا ضرورت تھی۔کیا میں سیدھا شاٹ کھیل کر لانگ آن اور لانگ آف پر کیچ نہیں ہو سکتا تھا؟ جب آپ بیٹنگ کر رہے ہوتے ہیں تو بولر کے ساتھ ساتھ ایک اندرونی جنگ آپ کے اندر بھی چل رہی ہوتی ہے۔‘
جب دھونی نے جوگیندر شرما سے کہا ’گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے‘:انڈین ٹیم کے کپتان مہندر سنگھ دھونی سے اکثر یہ سوال کیا جاتا رہا ہے کہ انھوں نے آخری اوور جوگیندر شرما ہی کو کیوں دیا جبکہ ہربھجن سنگھ کا ایک اوور ابھی باقی تھا۔مہندر سنگھ دھونی اکثر ایسے ہی کئی ماسٹر سٹروکس کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اور اپنی کپتانی کے اوائل میں ہی انھوں نے یہ ماسٹر سٹروک کھیل کر دنیائے کرکٹ میں بطور ایک عقل مند کپتان اپنا تاثر بنایا تھا۔مہندر سنگھ دھونی اپنے اس فیصلے کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مصباح الحق نے ہربھجن سنگھ کے تیسرے اوور میں تین چھکے مارے تھے اور مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ مصباح الحق سپنرز کو بہت اچھا کھیلتے ہیں۔‘’میں مصباح الحق کی سپن بولرز کے خلاف جارحانہ بیٹنگ کی صلاحیت اس وقت بھی دیکھ چکا تھا جب پاکستان اے بھارت اے اور کینیا کی ٹیمیں نیروبی میں سیریز کھیلی تھیں لہٰذا میرے پاس یہی آپشن موجود تھا کہ میں میڈیم پیسر سے آخری اوور کرواؤں۔‘جوگیندر شرما کے آخری اوور کی ایک دلچسپ بات شری شانت یہ بتاتے ہیں جو بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں ہو گی کہ ’جوگیندر شرما نے خود مہندر سنگھ دھونی سے کہا تھا کہ وہ آخری اوور کروانا چاہتے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے بولنگ دو، مجھے بولنگ دو۔‘جوگیندر شرما اپنے آخری اوور کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’آخری اوور میں مصباح کے چھکے کے باوجود مجھے یقین تھا کہ میں انھیں آؤٹ کر سکتا ہوں۔ اس سے قبل آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل میں بھی میں نے آخری اوور کیا تھا اور دو وکٹیں حاصل کی تھیں۔‘’دھونی کو مجھ پر پورا بھروسہ تھا اور انھوں نے مجھے حوصلہ دیا تھا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘جوگیندر شرما کہتے ہیں ’میری پہلی گیند وائیڈ ہوئی تھی لیکن وہ گیند بہت سوئنگ ہوئی تھی۔ ہمارا یہی پلان تھا کہ آف سٹمپ کے باہر یارکر کرنی ہے۔’جب میں نے تیسری گیند کرنے کے لیے جمپ لیا تو مصباح الحق نے خود کو پیڈل سوئیپ کے لیے تیار کر لیا تھا جس پر میں نے بھی خود کو تبدیل کیا اور سلو گیند کر دی کیونکہ اگر میں نارمل سپیڈ کے ساتھ گیند کرتا تو شاید وہ اوپر سے چوکا ہو جاتا۔‘
مصباح الحق گروپ میچ میں بھی جیت کے قریب آ کر رن آؤٹ ہوئے:اسی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان اور انڈیا کی ٹیمیں گروپ میچ میں بھی مدمقابل آئی تھیں۔ یہ میچ بھی اتنا ہی سنسنی خیز رہا تھا اور بالآخر ٹائی ہو گیا تھا جس کے بعد انڈیا نے ‘بول آؤٹ’ میں کامیابی حاصل کی تھی۔مصباح الحق اس میچ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈربن کی وکٹ آسان نہیں تھی جس پر انڈیا نے نو وکٹوں پر 141 رنز کا اچھا سکور بنایا تھا۔ ہمیں بھی رنز کے لیے تگ و دو کرنی پڑی تھی۔‘مصباح کے ساتھ کریز پر یاسر عرفات کھیل رہے تھے اور آخری دو اوورز میں 29 رنز اور آخری اوور میں 12 رنز درکار تھے۔مصباح کہتے ہیں کہ ’میں نے شری شانت کے آخری اوور میں دو چوکے لگائے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ پانچویں گیند شارٹ آف لینتھ تھی جس پر میں نے کٹ کرنے کی کوشش کی، گیند وکٹ کیپر کے پاس گئی تھی لیکن یاسرعرفات تقریباً میرے پاس بھاگ کر آ گئے تھے اور رن آؤٹ ہونے سے بچے تھے۔‘’مجھے یقین تھا کہ آخری گیند پر میں ایک رن بنا لوں گا لیکن میرا شاٹ سیدھا کور پوزیشن پر گیا۔ فیلڈر کی تھرو بولر کی طرف آئی اور میں رن آؤٹ ہو گیا۔‘
یونس خان کی وہ بات جو مصباح ’کبھی بھول نہیں سکتے‘:مصباح الحق کہتے ہیں کہ ’دو سال بعد جب پاکستانی ٹیم سنہ 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیل رہی تھی تو جب وننگ شاٹ کا وقت قریب آ رہا تھا تو کپتان یونس خان نے مجھ سے کہا کہ پیڈ کر لو حالانکہ بیٹنگ آرڈر میں مجھے نہیں جانا تھا لیکن یونس خان کو یاد تھا کہ دو سال پہلے میں فائنل میں وننگ شاٹ لگانے سے کس طرح محروم ہوا تھا اور وہ اس بار مجھے یہ موقع دینا چاہتے تھے۔’گو کہ مجھے بیٹنگ کرنے کا موقع نہ مل سکا اور شاہد آفریدی اور شعیب ملک ٹیم کو جتوا کر واپس آ گئے لیکن میں یونس خان کی اس بات کو کبھی نہیں بھول سکتا۔‘
’ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ ہمارے لیے نیا نہیں تھا‘:سنہ 2007 میں منعقدہ آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل ڈھائی سال کے مختصرسے عرصے میں مختلف ٹیسٹ ممالک نے برائے نام ٹی ٹوئنٹی میچ کھیل رکھے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں شرکت سے قبل انڈیا نے صرف ایک ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کھیل رکھا تھا جبکہ پاکستان نے پانچ میچ کھیلے تھے۔مصباح الحق کہتے ہیں کہ ’یہ فارمیٹ یقیناً دنیا کے لیے نیا تھا لیکن ہمارے لیے نیا ہرگز نہیں تھا کیونکہ ہماری کلب کرکٹ کی بنیاد ہی بیس اوورز کے میچوں پر قائم رہی ہے۔ عام دن ہوں یا رمضان کا مہینہ بیس اوورز کے میچز عام تھے۔‘مصباح الحق اپنی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ رمضان میں ہونے والی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ شائقین کے لیے بہترین تفریح ہوا کرتی تھی جس میں کھلاڑی دن میں دو دو میچز روزے کی حالت میں کھیلا کرتے تھے اور اسی کرکٹ کی وجہ سے ہم دیگر ممالک کے مقابلے میں اس فارمیٹ کے زیادہ قریب تھے۔’یہ کرکٹ کھیلنے سے ہمارے بیٹسمینوں میں چھکے مارنے کی صلاحیت آ گئی تھی جو بعد میں انٹرنیشنل کرکٹ میں کام آئی۔‘مصباح الحق کے مطابق ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کا متعارف ہونا ہمارے لیے بہت اچھا تھا چونکہ ہمارے لیے یہ کوئی نئی چیز نہیں تھی اس کا ہمیں فائدہ تھا کیونکہ ہمارے بولرز یارکر اور سلو گیند کرانے کے فن سے بخوبی آشنا تھے۔اس وقت ہمارے کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی کے لیے تیار شدہ تھے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے ہمارے کھلاڑیوں میں بہت زیادہ جوش و خروش تھا۔ ہمارا کیمپ ایبٹ آباد میں لگا تھا اور بہت اچھی تیاری ہوئی تھی اور اس وقت پاکستانی ٹیم ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی بہترین ٹیموں میں سے ایک تھی۔‘