سوڈان میں بغاوت کی ناکام کوشش:صورت حال قابو میں، تمام مشتبہ ملزمان گرفتار

خرطوم،ستمبر۔سوڈان میں حکام نے عبوری حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش ناکام بنادی ہے اور2019 میں معزول صدرعمرالبشیر کا تختہ الٹنے کے بعد سے ملک کا نظم ونسق سنبھالنے والی سویلین فوجی کونسل کودرپیش بڑے چیلنج سے بچالیا ہے۔خبروں کے مطابق سوڈان کی عبوری حکمران کونسل کے ایک سویلین رکن نے بتایا ہے کہ حکومت کے خلاف راتوں رات بغاوت کی کوشش کوناکام بنادیا گیا ہے اوراس کے بعد صورت حال قابو میں ہے۔ ترجمان محمد الفقیہ سلیمان نے بتایا کہ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔سابق صدرعمرالبشیر کی معزولی کے بعد سے ایک خود مختارکونسل ملک کا نظم ونسق چلا رہی ہے۔کونسل میں اعلیٰ فوجی قیادت اور شہریوں کے نمایندے شامل ہیں اوروہ ایک معاہدے کے تحت عبوری دورکے لیے حکومت چلارہے ہیں۔ کونسل 2024ء میں ملک میں آزادانہ انتخابات کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔خودمختارکونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان کے میڈیا مشیر نے سرکاری خبررساں ایجنسی سونا کو بتایا کہ فوج نے بغاوت کی کوشش کو شکست دے دی ہے اور صورت حال مکمل طورپرقابو میں ہے۔ایک سرکاری ذریعے نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بغاوت کے دوران میں دارالحکومت خرطوم سے دریائے نیل کے اس پار واقع جڑواں شہراْم درمان میں سرکاری ریڈیو کا کنٹرول سنبھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ذرائع نیبتایا کہ اس میں ملوث افراد کی محدود تعداد پرقابو پانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔البتہ سونا کی رپورٹ کے مطابق اس ناکام بغاوت میں ملوّث تمام افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ایک عینی شاہد نے بتایا کہ کونسل کے وفادار فوجی یونٹوں نے منگل کوعلی الصباح خرطوم کواْم درمان سے ملانے والے دریائے نیل کے پل کو بند کردیا تھا اور اس پر ٹینک کھڑے کردیے تھے۔عبوری حکام کے لیے یہ پہلا بڑا چیلنج نہیں تھا۔وہ اس سے پہلے بھی معزول صدرعمرحسن البشیر کے وفاداردھڑوں کی جانب سے بغاوت کی سابقہ متعدد کوششوں کو ناکام بناچکے ہیں یا انھوں نے ان بغاوتوں کا بروقت سراغ لگا لیا تھا۔یادرہے کہ عمرالبشیر کواپریل 2019ء میں سوڈانی فوج نے ان کی حکومت کے خلاف کئی ماہ تک عوامی احتجاجی مظاہروں کے بعد معزول کردیا تھا۔قبل ازیں 2020ء میں عبوری وزیراعظم عبداللہ حمدوک کے قافللے پرخرطوم میں دفتر جاتے ہوئے قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا لیکن وہ اس میں بال بال بچ گئے تھے۔
سوڈان؛عمرالبشیر کی معزولی کے بعد:سوڈان کا عمرالبشیرکا تختہ الٹنے کے بعد سے بتدریج بین الاقوامی سطح پرخیرمقدم کیاگیاہے۔معزول صدر سوڈان کے قریباً 30 سال تک مطلق العنان حکمران رہے تھے۔ وہ 2000ء￿ کی عشرے کے اوائل میں مغربی علاقے دارفرمیں مقامی آبادی کے خلاف مبیّنہ طورانسانیت مخالف جرائم کے الزامات میں ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کومطلوب ہیں۔عمرالبشیر اس وقت خرطوم کی ایک جیل میں قید ہیں جہاں انھیں کئی مقدمات کا سامنا ہے۔آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹرنے گذشتہ ماہ سوڈانی حکام کے ساتھ دارفر میں جرائم پرعمرالبشیر کی حوالگی کے لیے اقدامات میں تیزی لانے سے متعلق امورپر بات چیت کی تھی۔واضح رہے کہ سابق صدر کی معزولی سے پہلے ہی سوڈان کی معیشت شدید بحران کا شکار تھی ہے اوریہ معاشی بحران ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے۔عبوری حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کی نگرانی میں معاشی اصلاحات کا پروگرام شروع کررکھا ہے۔سوڈان کے عبوری حکام کی مغربی ممالک حمایت کررہے ہیں اور دنیا میں قرض دہندگان کے پیرس کلب نے جولائی میں سوڈان کے ذمے 14 ارب ڈالر کے قرضے منسوخ کردیے تھے۔اس کے علاوہ کلب کے اراکین نے سوڈان کے ذمے اپنے واجب الادا 23 ارب ڈالر سے زیادہ کے باقی قرضوں کی تشکیل نو سے اتفاق کیا تھا۔ان اقدامات کے باوجود سوڈانی معیشت میں بہتری کے آثار نمودار نہیں ہوئے۔وہاں افراط زر کی شرح بدستور زیادہ ہے اور ملک میں اشیائے ضروریہ اور بنیادی خدمات کی قِلّت ہے۔

Related Articles