ہم امن چاہتے ہیں:امریکا میں آرمینیا کی پہلی خاتون سفیرکی العربیہ سے گفتگو

واشنگٹن ،ستمبر۔واشنگٹن میں متعیّن آرمینیا کی پہلی خاتون سفیرلِلیت ماکونٹس کا کہنا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے بے چین ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں۔لِلیت ماکونٹس کو ایک ماہ قبل ہی واشنگٹن میں آرمینیاکی سفیرمقررکیا گیا ہے۔انھوں نے العربیہ انگلش سے بات کرتے ہوئے میزبان ملک سے دوطرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے اپنے اہداف اور عزائم بیان کیے ہیں۔37سالہ لِلیت واشنگٹن میں آمد سے قبل آرمینیا کی پارلیمنٹ میں مختصر مدت کے لیے اکثریتی پارٹی کی رہ نما اور وزیرثقافت کی حیثیت سے کام کرچکی ہیں۔ان کا امریکا کے دارالحکومت میں سیاسی بنیاد پر تقرر کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ آرمینیا میں حالیہ برسوں میں معاشی شرح نمو میں اضافہ دیکھا گیا تھا لیکن کروناوائرس کی وَبا اور 2020 میں پڑوسی ملک آذربائیجان کے ساتھ مسلح تنازع کی وجہ سے معاشی ترقی کا عمل جمود کا شکارہوگیا ہے۔ماکونٹس کے بہ قول:’’ ہم اب بھی ذہنی اورمعاشی طور پر جنگ کے اثرات سے نکلنے اور بحالی کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘آرمینیا اوراس کے سخت حریف پڑوسی ملک آذربائیجان کے درمیان گذشتہ سال ناگورنوقراباخ کے متنازع علاقے پر چھے ہفتے تک جنگ لڑی گئی تھی۔اس علاقے پرآرمینیا کئی دہائیوں سے قابض ہے جبکہ آذربائیجان اس کی ملکیت کا دعوے دار ہے۔روس کی مداخلت کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پایا تھا۔اس پرآرمینیا کے وزیراعظم نکول پشینیان، روسی صدر ولادی میرپوتین اورآذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے دست خط کیے تھے۔اس معاہدے کے تحت آذربائیجان نے متنازع علاقے کے بعض مفتوحہ حصوں پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔پشینیان نے اس معاہدے کو اپنے لوگوں اور خود کے لیے ناقابل یقین حد تک تکلیف دہ قراردیا تھا۔اس معاہدے کے ردعمل میں آرمینیا کی سڑکوں پر کشیدگی بڑھ گئی تھی اورہزاروں مظاہرین نے احتجاجی ریلیاں نکالی تھیں۔انھوں نے وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔اس پر پشینیان نے قبل ازوقت انتخابات کا اعلان کردیا تھا اور جون میں منعقدہ ان انتخابات میں وہ ایک مرتبہ پھر ملک کے وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں۔آرمینیا کے اطراف میں جارجیا، ایران، ترکی اور آذربائیجان واقع ہیں اور یہ ملک ایک طرح سے ان کے درمیان بند ہے۔اس کے آذربائیجان اور ترکی کے ساتھ تعلقات کشیدگی کاشکارہیں۔ترکی نے آذربائیجان کو آرمینیا سے جنگ میں ڈرون ٹیکنالوجی اورانٹیلی جنس معلومات فراہم کی تھیں،ترکی کی فوجی اورغیرفوجی امداد نے چھے ہفتے کی جنگ میں اہم کردارادا کیا تھا۔ماکونٹس کا کہنا تھا کہ ’’آرمینیا اورآذربائیجان کے درمیان دیرینہ تنازع کوحل کرنے کا بہترین طریقہ او ایس سی ای منسک گروپ ہے۔‘‘امریکا، فرانس اورروس اس کی مشترکہ صدارت کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ناگورنوقراباخ پرجنگ کے بعد آرمینیا کو امید ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی حدبندی اور امن کے قیام کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرلے گا۔ ہم دیرپا امن چاہتے ہیں۔ہم نے کبھی کسی ملک پر حملے کا آغاز نہیں کیا اور نہ ہی ہم ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نیآرمینیا کی آزادی کی 30ویں سالگرہ کے موقع پرایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا ناگورنوقراباخ کے تنازع کے طویل المیعاد سیاسی تصفیے کے لیے فریقین کی مدد اور تمام قیدیوں کی رہائی، لاپتا افراد کی چھان بین اور مہلوکین کی باقیات کے مکمل اور تیزی سے تبادلے سمیت لڑائی کے انسانی اثرات سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے۔ماکونٹس نے ناگورنوقراباخ جنگ کے بعد امریکا کے محکمہ خارجہ کے ان بیانات کی تعریف کی ہے جن میں جنگی قیدیوں کی واپسی پر زوردیا گیا تھا۔انھوں نے کہا کہ’’ 1994ء میں جب ہم نے (ناگورنوقراباخ پرلڑی گئی پہلی جنگ) جیتی تو ہم نے آذربائیجان کے تمام جنگی قیدیوں کوواپس کردیا تھا لیکن اب آذربائیجان کا آرمینیائی جنگی قیدیوں کوبدستوراپنے پاس رکھنا مضحکہ خیز ہے۔‘‘ان کے بہ قول بہت ایسے آرمینیائی بھی ہیں جنھیں گذشتہ سال کے تنازع کے دوران آذری جنگجوؤں اور فوجیوں نے بے گھرکردیا تھا یا انھیں آبائی علاقے چھوڑنے پرمجبورکیا تھا۔ اب آرمینیائی حکومت ایک بل پیش کررہی ہے۔اس کے تحت اندرونی ملک بے گھر ہونے والے آرمینیائی باشندوں کولازمی ضروری امداد مہیا کی جاسکے گی۔ماکونٹس کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے میں بین الاقوامی امداد کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں اورنہ یہ آرمینیائی مقصد ہے بلکہ وہ اس کے بجائے آذربائیجان کے ساتھ امن اورسرحدکی حد بندی کی شکل میں اقتصادی اور سلامتی امدادکا مطالبہ کر رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آرمینیا کو اپنی جمہوریت پر فخر ہے اور جنگ کے بعدگذشتہ سال ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں دنیا بھر کے بڑے دارالحکومتوں میں اپنی سفارتی کوششوں میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔مقررشدہ ماکونٹس نے وروڑان نرسیان کی جگہ واشنگٹن میں سفیرکا عہدہ سنبھالا ہے۔ان کے پیش رو کو برطانیہ میں آرمینیا کا نیا سفیرمقررکرکے لندن بھیج دیا گیا تھا۔آرمینیا کے بیرون ملک مقیم باشندوں اورحزب اختلاف کے قانون سازوں نے پشینیان کے کیریئرسفارت کارکی جگہ للیت ماکونٹس کے سیاسی تقررکیاقدام پرتنقید کی ہے۔مگرماکونٹس نے اس تنقید کو مسترد کردیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر ممالک میں سفیروں کا سیاسی بنیاد ہی پر تقرر کیا جاتا ہیاوراب وہ اپنے کام سے یہ ثابت کریں گی کہ وہ ایک صحیح انتخاب تھیں۔امریکا پہنچنے کے بعد ماکونٹس نے محکمہ خارجہ کے حکام، کانگریس اور سینیٹ کے ارکان سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں لیکن انھیں امریکا کی قومی سلامتی کونسل سمیت وائٹ ہاؤس کے حکام سے اس وقت تک ملاقات کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ ان کی اسناد امریکی صدرجوبائیڈن کے سامنے پیش نہیں کردی جاتیں۔اس عمل میں عام طور پرایک سے تین ماہ لگتے ہیں۔

 

Related Articles