بائیڈن جنرل اسمبلی سے خطاب میں عالمی مسائل کے حل کے لیے شراکت داری پر زور دیں گے
واشنگٹن ڈی سی،،ستمبر۔امریکہ کے صدرجو بائیڈن منگل کو اقوام امتحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے جس میں توقع ہے کہ وہ عالمی رہنماؤں سے کرونا کی عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے اقدامات کو تیز تر کرنے، آب و ہوا میں رونما ہوتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے پر زور دیں گے۔صدر بائیڈن ان مسائل کے خلاف عالمی شراکت داری کا متوقع کیس ایسے وقت میں پیش کریں گے جب امریکہ کے اتحادی ممالک اس بات کو جانچ رہے ہیں کہ سابقہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں امریکی خارجہ پالیسی میں کہاں تک تبدیلی آئی ہے۔کرونا وائرس کے متعلق تشویش کے پیش نظر صدر بائیڈن اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں محدود وقت گزاریں گے۔وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریس سے پیر کو ملاقات کر رہے ہیں۔ نیویارک میں قیام کے دوران وہ آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن سے ملاقات کریں گے، جبکہ سفارتکاری کے سلسلے میں ان کی دوسری مصروفیات واشنگٹن سے ورچوئل یعنی آن لائن رہیں گی۔بدھ کو بائیڈن کووڈ نائنٹین پر ایک کانفرنس کی میزبانی کریں گے جس کے دوران توقع ہے کہ وہ عالمی رہنماؤں پر زور دیں گے کہ اس مرض سے بچاو کی ویکسین کی تقسیم کے سلسلے میں کے گئے وعدے پورے کریں، آکسیجن کی کمی پوری کریں اور عالمی وبا سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کی کوششیں کریں۔منگل کے روز صدر بائیڈن برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن سے وائٹ ہاوس میں ملاقات کریں گے۔ علاوہ ازیں جمعے کو انہوں نے چار ملکوں کے گروپ کواڈ میں شرکت کے لیے آسٹریلیا کے وزیر اعظم موریسن، بھارت کے وزیر اعظم نریندرمودی، اور جاپان کے وزیر اعظم یوشدی سگا کو مدعو کیا ہے۔خبروں کے مطابق امریکہ کے اتحادی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا صدر بائیڈن نیگزشتہ صدر ٹرمپ کے مقابلے میں اپنی پالیسی کو ان خطوط پر تبدیل کیا ہے، جن کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔سفارتکاری کے اجلاسوں سے پہلے اس ضمن میں بات کرتے ہوئے امریکہ کی سفیر برائے اقوام متحدہ لنڈا تھامس گرین فیلڈ نیکہا، "ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری ترجیحات محض امریکی ترجیحات نہیں ہیں بلکہ یہ عالمی ترجیحات ہیں۔”لیکن گزشتہ کئی مہینوں میں صدر بائیڈن کو کچھ اتحادی ممالک سے اہم مسائل پر اختلافات کا بھی سامنا رہا ہے۔مثال کے طور پر افغانستان سے امریکی انخلا، کووڈ ویکسین کی تقسیم، بین الاقوامی سفری پابندیوں اور چین کی عسکری اور اقتصادی کارروائیوں کے خلاف جوابی اقدامات کے معاملات پر اختلافات سامنے آئے ہیں۔فرانس کی طرف سے امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے آسٹریلیا کو نیوکلر ٹیکنالوجی سے چلنے والی آبدوزوں کی فراہمی پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔یاد رہے کہ صدر بائیڈن نے اپنی صدارت کا آغاز اس اعلان کے ساتھ کیا تھا کہ "امریکہ واپس آگیا ہے” اور یہ کہ وہ مسائل پر پہلے سے زیادہ بین الاقوامی تعاون کی راہ اختیار کریں گے۔ساتھ ہی صدر بائیڈن نے گزشتہ دو عشروں سے جاری عراق اور افغانستان کی جنگوں اور مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے دہشت گردی کے خطرات پر تمام تر توجہ کے مقابلے میں امریکہ کی قومی سلامتی کی ترجیحات کو مختلف انداز سے ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اور اس کے جمہوری اتحادیوں کو چین اور روس کی جانب سے اقتصادی اور سلامتی کے خطرات سے نمٹنے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔