خواتین کا احتجاج اور طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ کے حوالے سے سوالات
کابل,ستمبر,گذشتہ صبح کابل میں شروع ہونے والے احتجاج کے بارے میں ہمیں پتہ چلا تھا کہ یہ پاکستانی سفارتخانے کے باہر ہو گا۔ ہم بھی اس کی کوریج کرنے کے لیے گئے لیکن وہاں پہنچے تو پتہ چلا یہاں نہیں بلکہ یہ احتجاج کسی اور علاقے میں خواتین کے لیے مخصوص ایک پارک میں ہو رہا ہے۔جب وہاں پہنچے تو پارک کے قریب ڈیوٹی پر موجود ٹریفک اہلکار نے بتایا کہ مظاہرین آگے بڑھ چکے ہیں تو ہم بھی آگے چل دیے۔ہمیں کوہ مرکز کے علاقے میں مظاہرین دکھائی دیے، ان کی تعداد پانچ سو کے قریب تھی۔ دور سے ہمیں ان کے نعروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ’مرگ مرگ بر پاکستان‘ (پاکستان مردہ باد)۔یہ لوگ مسلسل نعرے لگائے جا رہے تھے اور یہ بھی سوال کر رہے تھے کہ پاکستان کے آئی ایس آئی چیف کابل کیا لینے آیا تھا۔کابل میں ایسے مظاہرے کوئی نئی بات نہیں، مختلف فورمز پر لوگ پاکستان کے خلاف بات کرتے رہتے ہیں لیکن میں نے ایسا مظاہرہ کابل میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ایک عورت نے کہا پاکستان خود سامنے نہیں آتا، یہ ان کی ذہنیت بدلتے ہیں۔ یہ (طالبان) وہاں کے مدرسوں میں پڑھے ہیں اور ان کی ٹریننگ وہاں کی گئی ہے۔مظاہرے میں طالبان کی کئی گاڑیاں اور پیدل اہلکار مسلسل مظاہرین کو سائرن بجا کر، بندوقیں تان کر اور گاڑی ان کے بالکل قریب لا کر جیسے ابھی ان پر چڑھا دیں گے، انھیں منتشر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔طالبان کہہ رہے تھے ’نکلو، یہاں سے جاؤ‘ اور مظاہرین کو دھکے دے رہے تھے۔ وہاں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں تھی۔ طالبان ان پر بندوقیں تان کر انھیں ڈرا رہے تھے۔ ہمیں بھی راستے میں روکا بھی جا رہا تھا، طالبان کی طرف سے بھی اور دوسرا ہمیں سکیورٹی کے حوالے سے داعش کے حملے کا خدشہ بھی تھا۔گھڑی پر ساڑھے بارہ بجنے کو تھے اور مظاہرین ایرانی سفارتخانے کے پاس سے ہوتے ہوئے صدارتی محل کے باہر پہنچ چکے تھے۔میں سائرن بجاتے طالبان کے سپیشل سکواڈ کو فلم بند کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔اسی دوران اس قدر شدید فائرنگ کی گئی کہ لوگ ڈر کر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔مجھے خواتین بھاگتی ہوئی دکھائی دیں، اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو چھوڑ کر محفوظ جگہ کی تلاش میں بھاگتے لوگ نظر آئے۔ میں نے ایک شخص کو خواتین کے لیے اپنے گھر کا دروازہ کھولتے بھی دیکھا تا کہ وہ وہاں پناہ لے پائیں۔کچھ آگے بڑھا تو ایک طالب نے میرا فون چھین لیا اور مجھے کہا ’بس کرو، تم ہمارے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہو۔ بند کرو یہ ویڈیو۔‘اس نے مجھے کہا کہ میں تمھارا موبائل توڑ دوں گا۔ خیر میں نے اپنا اجازت نامہ دکھایا اور منت سماجت کر کے فون واپس لیا۔آج مظاہرے کے دوران جب میں لوگوں سے بات کر رہا تھا تو مظاہرین میں سے ایک نے مجھے اور سکندر کو دیکھ کر نہایت غصے سے کہا ’تم پاکستانی یہاں سے دفع کیوں نہیں ہو جاتے، چلے جاؤ۔‘ابھی ہوٹل واپس آئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا تو پتہ چلا کہ ذبیح اللہ مجاہد اہم پریس کانفرنس کریں گے۔آج وہاں پریس کانفرنس سے پہلے بہت ہی چیکنگ تھی اور ہال میں بالکل خاموشی۔جب بڑے منظم طریقے سے چیکنگ ہوئی اور صحافیوں کی کرسیوں کی لائن کے آگے صوفے لگائے گئے تو ہم نے سوچا کہ آج واقعی کوئی آ رہا ہے۔اس کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عبوری حکومت کا اعلان کیا۔ ایک بار پھر امیر ہبت اللہ کا نام غائب تھا۔33 وزرا پر مشتمل اس کابینہ میں 17 لوگ یعنی وزیراعظم سمیت آدھی کابینہ اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں ہے۔یہ سوال بار بار پوچھا گیا کہ ملا ہبت اللہ کہاں ہیں؟ اس کا جواب گھوم پھر کر یہی ملا کہ وہ ’ادھر ہی ہیں، ادھر ہی ہیں۔‘پریس کانفرنس کے بعد ہم صحافی بھی صبح کے مظاہرے کی مانند منتشر ہو گئے، اس سوال کے ساتھ کہ ساری کابینہ تو بن گئی لیکن طالبان کے امیر ہبت اللہ کی نہ کوئی خبر آئی نہ تصویر۔