وہ افغان جو ملک چھوڑ نہ سکے طالبان کے سائے میں ان کی زندگی کیسی ہے؟
کابل،ستمبر,افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے ملک چھوڑ دیا ہے لیکن ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو خواہش کے باوجود ایسا نہ کر سکے اور اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ملک کے مختلف شہروں میں مقیم چار ایسے ہی افراد نے بی بی سی کو اپنی کہانیاں سنائیں کہ طالبان کے آنے کے بعد ان کی زندگی کیسے بدلی ہے۔ان افراد کی شناخت ان کے تحفظ کے لیے پوشیدہ رکھی گئی ہے۔مزار شریف تاجکستان اور ازبکستان کے قریب افغانستان کے شمال میں ایک بڑا شہر اور بڑا اقتصادی مرکز ہے۔ پہلے یہ افغان حکومت کا گڑھ کہا جاتا تھا لیکن یہ 14 اگست کو طالبان کے قبضے میں آگیا تھا۔مجیب ایک ریستوران میں کام کرتے تھے۔ اب انھیں اپنے لیے کھانا حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ مزارِ شریف سے ایک ویڈیو کال میں انھوں نے دکھایا کہ کس طرح ایک ویران عمارت کا گندا فرش جہاں چند کمبل کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں، اب ان کا نیا گھر ہے۔مجیب صرف چند ہفتے پہلے ہی شہر پہنچے تھے جہاں رواں سال طالبان اور حال ہی میں معزول حکومت کی فوج کے درمیان لڑائی کے باعث پانچ لاکھ سے زائد افغانی بے گھر ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ان کے والد کو 10 سال سے زیادہ عرصہ قبل طالبان نے قتل کر دیا تھا۔ اور اب ایک دہائی بعد وہ ’باہر جانے سے ڈرتے ہیں‘ کیونکہ ’وہ (طالبان) ہر روز لوگوں کو مار رہے ہیں۔‘گذشتہ ہفتے مزارِ شریف کی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ درجنوں افغان سوٹ کیس اور پلاسٹک کے تھیلے اٹھائے اس امید پر بسوں میں سوار ہو کر دارالحکومت کابل جا رہے تھے کہ انھیں ملک سے باہر نکلنے کا موقع مل جائے گا۔لیکن امریکی افواج کے ملک سے انخلا کے بعد پچھلے کچھ دنوں سے زیادہ لوگ کابل سے مزارِ شریف آ رہے ہیں۔ مجیب نے کہا کہ یہ لوگ ازبکستان کے ساتھ سرحد پار جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔مجیب بھی ملک سے باہر جانے کے لیے بے چین ہیں، لیکن انھیں پتا نہیں کہ وہ نکلنے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ طالبان یہاں ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ لوگ ملک سے باہر چلے جائیں۔افغانستان کے جنوب میں صوبہ ہلمند ہے۔ لڑائی کے دوران یہاں برطانوی فوجی تعینات تھے۔ طالبان نے 13 اگست کو اسے اپنے قبضہ کر لیا تھا۔ صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ نے پچھلے ہفتوں میں کچھ شدید قسم کی لڑائی دیکھی ہے۔ڈاکٹر وکٹر یوروسوویچ کے دفتر کے نوٹس بورڈ پر پلاسٹک کے چھوٹے تھیلے لٹکے ہیں جن میں گولیاں ہیں۔ ڈاکٹر وکٹر نے ایک ویڈیو انٹرویو میں کیمرے کا رخ اس کی طرف کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اسے شرمندگی کی دیوار کہتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ان میں سے بیشتر بڑے کیلیبر کی گولیاں تھیں جنھیں انھوں نے نوجوان زخمیوں کے جسم سے نکالا تھا۔ڈاکٹر وکٹر لشکر گاہ کے ٹراما ہسپتال میں کام کرتے ہیں۔ اب چونکہ لڑائی ختم ہو چکی ہے، اس لیے اب وارڈز پہلے کی طرح بھرے ہوئے نہیں ہیں جیسا کہ چند ہفتوں پہلے ہوا کرتے تھے۔ بمباری اور گولی باری رک گئی ہے اور باہر کی سڑکوں پر سناٹا ہے۔انھوں نے کہا: ’یہ بہت عجیب بات ہے، میں یہاں کچھ برسوں سے رہا ہوں، لیکن یہاں کبھی اتنی خاموشی نہیں رہی۔ میں اسے طوفان سے پہلے کی خاموشی کے طور پر دیکھ رہا ہوں، مجھے امید ہے کہ میں غلط ہوں، لیکن پتہ نہیں آگے کیا ہوتا ہے۔‘ڈاکٹر وکٹر نے کہا کہ لشکر گاہ میں بم دھماکوں سے بہت سی عمارتیں تباہ یا مخدوش ہو گئی ہیں اور لڑائی کے دوران بھاگنے والے خاندان کھنڈرات میں اپنے گھروں کو ڈھونڈنے کے لیے واپس آ گئے ہیں۔انھوں نے کہا: ’وہ مسجد کے سامنے سو رہے ہیں، وہ گلیوں میں سو رہے ہیں۔ ان کے پاس اپنے گھروں کی تعمیر نو کے لیے رقم نہیں ہے اس لیے ان میں سے بہت سے بے گھر ہو گئے ہیں یا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ علاقے میں بہت سے خاندان غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دن کے وقت کھانا حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کئی دنوں سے بینک بند ہونے کے باعث نقد رقم تک عدم رسائی نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔بہت سے غیر ملکی امدادی کارکن جو اس قسم کی امداد تقسیم کر رہے تھے، انھوں نے طالبان کے اقتدار سنبھالتے ہی ملک چھوڑ دیا تھا۔ سربیا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر وکٹر ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے وہاں رکنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے کہا کہ ’یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہم صوبے کا واحد ٹراما سینٹر ہیں۔ لوگوں کو خوراک کی ضرورت ہے، انھیں پیسوں کی ضرورت ہے، انھیں ادویات کی ضرورت ہے۔‘افغانستان کے غریب ترین صوبوں میں سے ایک بدخشاں ملک کے شمال مشرق میں تاجکستان کی سرحد سے ملتا ہے۔ طالبان نے 11 اگست کو صوبائی دارالحکومت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔عبدل، بدخشاں میں رہائش پزیر ڈاکٹر ہیں۔ وہ اس وقت طالب علم تھے جب پچھلی دفعہ طالبان کی ملک پر حکومت تھی۔انھوں نے کہا کہ ’اس وقت حالات بہت خراب تھے اور اب بھی ان کا رویہ ویسا ہی ہے جیسا ماضی میں تھا۔ مجھے کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔‘عبدل نے بی بی سی کو اس علاقے کے ایک ہسپتال سے کئی تصاویر بھیجی ہیں۔ یہ ہسپتال اب طالبان کی نگرانی میں ہے۔ ایک تصویر میں ایک 18 ماہ کا کمزور سا بچہ بستر پر لیٹا ہوا ہے اور اس کی ماں اس سے بچانے کے لیے طبی عملے کے سامنے گڑگڑا رہی ہے۔ عبدل کے مطابق اس کی ماں کے پاس اسے کھانا کھلانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔انھوں نے کہا کہ روز بروز مزید بچے غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں پانچ سال سے کم عمر کے آدھے سے زیادہ بچے اگلے سال شدید غذائی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔اس صوبے میں بہت سے لوگوں کے لیے غربت پہلے ہی ایک کڑوی حقیقت تھی لیکن جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے اور سرکاری ملازمین کی نوکریاں ختم ہوئی ہیں خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کچھ ابھی بھی پچھلے چند مہینوں سے ادائیگی کے منتظر ہیں۔عبدل کو صوبے میں خواتین کے حقوق کے متعلق بھی خدشات ہیں۔ ابھی تو خواتین میڈیکل سٹاف کو کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ بہت سی دوسری خواتین کو اپنی ملازمت جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے اور انھیں غیر یقینی مستقبل کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔عبدل نے کہا کہ چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کو اب سکول جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’لوگوں کو اپنے مستقبل کی کوئی امید نہیں ہے۔ بدخشاں میں لوگوں کے لیے مواقع نہیں ہیں۔‘ہرات ایران کی سرحد کے ساتھ شاہراہ ریشم پر واقع شہر ہے۔ ہرات کو افغانستان کے سب سے زیادہ لبرل شہروں میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ امریکی فوجیوں کے نکلنے کے دوسرے دن طالبان کے سینکڑوں حامی سڑکوں پر نکل آئے اور دوسرے لوگ خوف سے گھروں میں رہے۔بی بی سی سے بات کرنے سے قبل گل ابھی بازار سے واپس آئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’پورے بازار میں طالبان اپنی بندوقیں لیے کھڑے ہیں۔ آپ کو سڑک پر بہت سے امیر لوگ یا عورتیں اور لڑکیاں نظر نہیں آتیں کیونکہ وہ سب طالبان سے خوفزدہ ہیں۔‘گل کی بیوی افسون اب کسی محرم مرد کو ساتھ لیے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی اور انھیں اپنا چہرہ ڈھانپنے والا برقع پہننا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ میری بیٹی کا مستقبل غیر واضح ہے۔گل کی بہن ڈاکٹر ہیں۔ لیکن ان کو کہا گیا کہ وہ اپنے کلینک سے چند ہفتوں تک دور رہیں حالانکہ طالبان رہنماؤں نے طبی پیشے میں موجود خواتین کو کام پر آنے کی اجازت دے رکھی ہے۔گل نے کہا کہ کئی دن بعد وہ دوسری خواتین کے ساتھ واپس آنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کے باوجود بہت سی دوسری خواتین اب بھی گھروں پر ہیں اور یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ وہ اپنے کیریئر کو دوبارہ شروع کر سکیں گی یا نہیں جس کے لیے انھوں نے محنت کی تھی۔گل اور ان کا خاندان اب بھی افغانستان چھوڑنے کی امید کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم کہیں بھی چلے جائیں گے، امریکہ، جرمنی، فرانس، کہیں بھی۔‘