برطانیہ میں بردہ فروشی کی بڑھتی لعنت
عارف عزیز( بھوپال)
عالمی تاریخ میں انسانوںکی اسمگلنگ نے اُس وقت جنم لیا، جب قرون وسطیٰ میں برطانوی بردہ فروشوں نے افریقہ پر ہلا بولا اور وہاں انسانوں کی خرید و فروخت کے مذموم کاروبار کی بنیاد رکھی۔ اِن غلاموں کی نسلیں آج بھی امریکہ، یوروپ سے لے کر ایشیاء تک پوری دنیا میںپھیلی ہوئی ہیں۔ دو صدی قبل برطانیہ میں شاہی رضا مندی حاصل کرتے ہوئے انسانی تجارت کے خاتمے کے لئے ایک قانون منظور کیا گیا تھا۔ جو ۲۵ مارچ ۲۰۱۷ء کو اپنے ۲۲۷ سال مکمل کر لے گا۔ لیکن انسانی اسمگلنگ کی صورت میں صرف خواتین کی تجارت اب پہلے سے کہیں زیادہ پھیل چکی ہے۔ اس تجارت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ ۲۱ویں صدی میں خواتین کی اسمگلنگ مختلف طریقوں سے ہورہی ہے۔ برطانوی حکومت کی تحقیق کے مطابق صرف ۲۰۱۶ء کے دوران اسمگل ہونے والی چا رہزار خواتین کو عصمت فروشی کے کاروبار کیلئے استعمال کیا گیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دو سو سال گزر جانے کے بعد بھی برطانیہ اِس شرمناک تجارت کو ختم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ آج بھی وہ ایسی ہزاروں اسمگل عورتوں اور بچیوں کا آماجگاہ بنا ہوا ہے، جنہیں دھوکے، فریب، دھمکی اور تشدد کے ذریعے عصمت فروشی اور جبری مشقت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بہت سی خواتین کو کئی کئی بار فروخت کیا جاتا ہے۔ خلیج ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق پوپی پروجیکٹ لندن سیف ہاؤس اسکیم میں اسمگل شدہ خواتین، جو عصمت فروشی سے منسلک ہیں، چار ممالک ان کے بڑے ذرائع سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں لتھوینیا، البانیہ۔ نائیجیریا اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ خواتین کو یہاں پر آٹھ سے بارہ ہزار پاؤنڈ میں فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ وہ صنف ہے، جس سے مجرموں کا نیٹ ورک بہت وسیع پیمانے پر کمارہا ہے۔ تھائی لینڈ اور آس پاس کے دوسرے علاقوں میں اس کاروبار کو انڈسٹری کا نام دے دیا گیا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی مختلف رپورٹوں کے مطابق غیر قانونی ریکروٹنگ ایجنٹ، بدعنوان اہل کار، والدین، خاندان، رشتے دار اور کمیونٹی، خواتین کی اسمگلنگ کے عمل میں شریک کار ہوتے ہیں، جب کہ امیگریشن حکام، ٹریول ایجنٹ اور پاسپورٹ جاری کرنے والا محکمہ بھی اس کاروبار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے بیان کے مطابق عورتوں کو بغیر کسی دستاویز کے اسمگل کرکے کاروں اور ٹرکوں کے ذریعے مختلف ممالک میں پہنچایا جاتا ہے۔ ایک دفعہ کاروبار کے کرتا دھرتا کے چنگل میں پھنسنے والی عورتیں ہزارہا کوششوں کے باوجود ان کے عذاب سے بچ نہیں سکتیں۔ وہ انہیں نشہ آور ادویہ دے کر اور دوسری مہلک بیماریوں میں مبتلا کرکے اتنا بے بس کر دیتے ہیں کہ پھر وہ کسی طرح ان سے جان نہیں چھڑا سکتیں۔ یہ صورتِ حال دنیا کے تہذیب یافتہ انسانی معاشرہ اور انگریز قوم کے لئے نہایت شرمناک ہے۔