جلد انصاف کیلئے لوک عدالتوں کی کارروائی کارگر ہے

عارف عزیز( بھوپال)
ملک بھر کی عدالتوں میں اگر پینڈنگ پڑے معاملات کی تعداد دیکھیں تو یہ حیرتناک ہے۔ عالم یہ ہے کہ آہستہ آہستہ پینڈنگ پڑے مقدمات کی کل تعداد تین کروڑ سے اوپر پہنچ گئی ہے۔ ماتحت عدالتوں میں فی الوقت دو کروڑ چھ لاکھ سے زیادہ اور مختلف ہائی کورٹوں میں چوالیس لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ مقدمے پینڈنگ پڑے ہیں۔ ہائی کورٹوں میں پینڈنگ پڑے چوالیس لاکھ مقدمات میں چونتیس لاکھ بتیس ہزار چار سو ترانوے دیوانی اور دس لاکھ تیس ہزار سات سو انتالیس فوجداری معاملے ہیں۔ دو ہزار تیرہ تک سب سے زیادہ دس لاکھ تینتالیس ہزار تین سو اٹھانوے دیوانی و فوجداری معاملے الہ آباد ہائی کورٹ میں پینڈنگ ہیں۔ جبکہ نچلی عدالتوں مین پہینڈنگ پڑے ۶ء۲ کروڑ معاملے میں سب سے زیادہ چھپن لاکھ سے زیادہ کیس اتر پردیش کی ماتحت عدلیہ میں پینڈنگ ہیں۔ پینڈنگ معاملات کی ایک اہم وجہ عدالتوں کے مقابلے میں ججوں کی کمی ہے۔ حال ہی میں اس بات کا خود حکومت نے پارلیمنٹ میں اعتراف کیا ہے کہ ہائی کورٹوں میں ججوں کی تین سو انچاس اور نچلی عدالتوں میں چار ہزار چار سو تین عہدے خالی ہیں۔ ملک میں کل چوبیس ہائی کورٹ ہیں جن میں ججوں کے کل نو سو چوراسی عہدے منظور ہیں لیکن کام صرف چھ سو پینتیس جج ہی کر رہے ہیں۔ یعنی تین سو انچالیس پوسٹیں خالی ہیں۔ ضلع عدالتوں پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو وہاں بھی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ان عدالتوں میں ججوں کی کل انیس ہزار پانچ سو اٹھارہ پوسٹیں منظور ہیں لیکن کام صرف پندرہ ہزار ایک سو پندرہ ہی کر رہے ہیںَ لوک عدالت کے اہتمام کا اہم مقصد پینڈنگ پڑے مقدموں کی تعداد کم کرنا اور متعلقہ فریقین کو فوراً انصاف دلانا اور لوگوں کو تاریخوں کے چکر میں الجھے رہنے سے نجات دلانا ہے۔ لوک عدالت تنازعوں کو نپٹانے کا بہترین راستہ ہے۔ اس میں مقدمہ لڑنے والے دونوں فریق باہمی رضامندی کے ذریعہ حل پر پہونچتے ہیں اور انہیں عدالت میں اپنے مقدمات کے فیصلے کے لئے برسوں انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ لوک عدالتوں کے ذریعہ جہاں تنازعوں کے تصفیے میں خرچ کم ہوتا ہے وہیں فریادی کو آسانی سے انصاف بھی مل جاتا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں فریق کو معاملے کے حل کے لئے کوئی فیس بھی نہیں دینا پڑتی۔ یعنی مقدمہ کرنے والے غریب لوگ جو مقدمے کا خرچ نہیں اٹھا سکتے، وہ بھی لوک عدالتوں میں راحت حاصل کرسکتے ہیں۔ عدالتوں میں چلنے والے بہت سے ایسے معاملے ہوتے ہیں جن میں فریق کو محض ثالثی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن صحیح معلومات نہیں ہونے کی صورت میں وہ بلا وجہ برسوں مقدموں میں الجھے رہتے ہیں۔ لوک عدالت میں زیادہ تر کیس ثالثی کے ذریعہ ہی سلجھائے جاتے ہیںَ ایک لحاظ سے دیکھیں تو لوک عدالت یا ثالثی جلد انصاف دینے کا ایک سب سے مؤثر اوزار ہے جو ہمارے آئین کے دیباچے کے مقصد کی تصدیق کرتا ہے۔ ان عدالتوں میں تمام طرح کے سول اور مجرمانہ معاملات کو باہمی مفاہمت اور رضامندی سے حل کیا جاتا ہے۔ لوک عدالت کے جہاں یہ روشن پہلو ہیں وہیں اس کی کچھ حدود بھی ہے۔ مگر یہ حدیں ایسی ہیں جو اس کی کمزوری قطعی نہیں۔ مثلاً غیر سمجھوتہ والے معاملات کو لوک عدالت میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے لوک عدالت کے ذریعہ دیا گیا فیصلہ تمام فریقوں کے لئے حتمی ہوتا ہے اور اس کے خلاف کسی عدالت میں اپیل یا نظر ثانی کی عرضی دائر نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا ان معاملات کی سماعت کر رہے ممبران کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاملے کی سماعت کرتے وقت سب سے پہلے یہ طے کریں کہ تمام فریق کو تصفیے کی تمام شرائط اچھی طرح سمجھ میں آرہی ہیں یا نہیں۔ یہی نہیں عدالت کسی کی سماعت کرتے وقت اس بات پر بھی نظر رکھے کہ ان کے فیصلوں سے رضامندی کے لئے فریق دھمکائے یا گمراہ نہ کئے جائیں۔ نیشنل لوک عدالت کا افتتاح کرتے ہوئے چیف جسٹس ایچ ایل دتو نے اپنے بیان میں یہ بات صاف طور پر کہی ہے کہ تمام سطحوں پر لوک عدالتوں کے پریسائیڈنگ افسران کے ذریعہ فریقین پر معاہدے کے لئے کوئی دباؤ نہیں بنایا جائے۔
ملک میں لاکھوں لوگوں کے ساتھ ناانصافی کی وجہ ناخواندگی، بیداری کا فقدان، عدالتی کارروائی میں بلا ضرورت تاخیر، مقدمے کا خرچ اور پیچیدہ قانونی عمل ہے۔ انصاف کو عام آدمی کی پہنچ میں لانے کی کوشش کی جانے کے باوجود یہ اب بھی اُس کے لئے مشکل بنا ہوا ہے۔ سماج کے حاشیہ پر رہنے والے طبقوں کے معاملات کے تصفیے کے لئے جب تک عدالتیں انسانی نظریہ نہیں اپناتیں تب تک انصاف ان سے دور ہی رہے گا۔ لوک عدالتیں نتائج کے لحاظ سے اِس ضمن میں کافی مفید ثابت ہورہی ہیں۔

Related Articles