خواتین کے خلا ف بڑھتے جرائم اصل مجرم کون؟
عبداللطیف ندوی
گزشتہ چند برسوں سے اپنے اپنے وطن عزیز میںخواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے پے در پے سامنے آنے والے واقعات کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پرہندوستان سرخیوں کاموضوع رہا ہے یہاں تک کہ کسی غیرملکی تنظیم کے ایک جائزے میں اس کو دنیا میں خواتین کے تعلق سے سب سے غیرمحفوظ ملک تک قرار دے دیاگیا۔ہندوستان جیسے ملک میں ایسے جرائم اوردردناک حادثات جہاںخواتین کو دیوی سمجھ کر پوجنے کی بات کی جاتی کسی طرح قابل قبول نہیں۔
چندسالوںقبل دہلی میں ایک طالبہ کے ایک چلتی بس میں اجتماعی عصمت دری اور پھر قتل کے واقعے کے خلاف پورے ملک میں وسیع تر احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے اور اس واقعے کے بعد حکومت نے خواتین کے خلاف جنسی جرائم سے متعلق قوانین مزید سخت بنانے اورخواتین کے حقوق کی بڑی بڑی باتیںکی تھیں لیکن تاحال ملک میں ایسے جرائم کی شرح میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں آئی بلکہ اس میںروز افزوں اضافہ ہی ہوتا جارہاہے۔اسی سلسلے کی ایک نئی اورنہایت ہی دہلادینے والی کڑی قومی دارالحکومت دہلی میںشہری دفاع میں تعینات رابعہ سیفی کی عصمت دری کے بعد بہیمانہ قتل ہے جو شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔پورے ملک میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ ملزمان کی گرفتاری نہ ہونے اور پولیس کی تساہلی کے خلاف عوامی سطح پر شدید ناراضگی کامظاہرہ کیاجارہاہے۔
اس دردناک سانحہ کی تفصیل یہ ہے کہ دہلی کے سنگم وہار کی رہنے والی رابعہ سیفی کے ساتھ حیوانیت و درندگی کا مظاہرہ ہوا۔متاثرہ دہلی پولیس اسٹیشن میں پولیس کانسٹیبل کے عہدہ پر فائز تھی اور ابھی اس کی ملازمت کو صرف چاہ ماہ ہی مکمل ہوئے تھے۔ وہ 27 ؍اگست کو گھر نہیں لوٹی تو گھر والوں نے پولس محکمہ میںفون کیاوہاں پہلے فو ن نہیں اُٹھا بعد میں بار بار فون لگانے کے بعدوہاں سے جواب یہ ملا کہ وہ یہاں سے جاچکی ہے۔پھر گھر والوں نے اس کی تلاش شروع کی، لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں ملا بعدمیں رابعہ کی لاش ملی جس کی پہلے کئی بار عصمت دری کی گئی اس کے بعداس کو بہیمانہ طریقہ سے قتل کردیاگیااس کی لاش پر50 سے زائد چاقو کے نشان تھے۔گردن کاٹ دی گئی،دونوں پستان کاٹ دئے گئے شرم گاہ میں کئی بار چاقوں سے وار کئے گئے۔ پیر اور ہاتھ کی نسیں کاٹ دی گئیں اور کمر کے حصے میں چاقو سے پے درپے وار کئے گئے۔والدین نے فوری طورپر اس معاملے کو پولیس کیپاس درج کرایا لیکن پولیس اس معاملہ کو نظر انداز کررہی ہے۔ اور ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ متاثرہ خاندان اس معاملے کو فرید آباد کے سورج کنڈ پولیس اسٹیشن سے سنگم وہار پولیس اسٹیشن منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے تاکہ پولیس اس معاملے میں تیزی سے کام کر سکے اور مجرموں کو سزا دلانے میںجلد کامیاب ہوسکے۔ اب تک اس معاملے میں پولیس نے کوئی بڑی کارروائی نہیں کی ہے اور کاروائی کے نام پر صرف ٹال مٹول کی بیان بازی کررہی ہے جس کی بناء پر رابعہ کے والدین نے پولیس افسران پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہاہے کہ یہی لوگ اس قتل کے اصل ذمہ دارہیں اوران کے خلاف سخت سے سخت کاروائی ہونی چاہیے ،سی- بی- آئی- جانچ کے بعد ان قاتلوں کو پھانسی کی سزا ہونی چاہیے۔
اب جبکہ یہ بات دھیرے دھیرے کھلتی جارہی ہے کہ رابعہ قتل کے پیچھے پولیس افسران کا ہاتھ نہیں توان کی لاپروائی توضرور ہے۔اس معاملے میں حکومت و انتظامیہ کی تساہلی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک متوسط خاندان کی لڑکی ہے۔ اگر رابعہ کسی بڑے خاندان یا اونچے عہدے پرفائز ہوتی تو حکومت وانتظامیہ کا یہ رویہ ہرگز نہیں ہوتا۔ اس معاملے میں پولیس کے مطابق جو کہانی سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ نظام الدین نے رابعہ سے شادی کرلی تھی، لیکن رابعہ کااس کے ساتھ سلوک اچھا نہیںرہا جس کی بناء پر ملزم نے اس کو قتل کر دیا اور خود کوقانون کے سپرد کر دیا۔ اگر اس کہانی پر یقین بھی کرلیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملزم کو خودسپردگی ہی کرنا تھا تو اس کے لیے اُسے دہلی سے باہر جانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے علاوہ اس معاملے میں پولیس اس آڈیو ریکارڈنگ کے بارے میں بھی ابھی تک کوئی صاف جواب نہیں دے سکی ہے جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ رابعہ کے ساتھ کام کرنے والی کسی خاتون دوست کا ہے اور جس نے اپنے سینئر روندر مہرا کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ کیا یہ سب باتیں اس درندگی وقتل کو منصوبہ بند قرار دینے کی وضاحت نہیںکررہی ہیں؟
اگر رابعہ سیفی نے شادی کرلی تھی اور شوہر نے اس کے غلط برتاؤ کی وجہ سے اسے مار دیا۔ سوال حکومت، انتظا میہ اورعوام کی بے حسی کا ہے۔ کیا اس طرح کے جرائم پر اسی وقت انصاف کیلئے آواز بلندکی جاتی جب متاثرہ لڑکی ہائی پروفائل طبقے سے تعلق رکھتی ہوتی؟ کیا رابعہ کے ساتھ ہوئے دردناک سانحہ کو یہ کہہ کر ہم اپناپلہ جھاڑ نہیںرہے ہیں کہ مجرم نے خود سپردگی کردی ہے؟
اس کیس میںنئی بات سامنے یہ آئی ہے کہ رابعہ کی والدہ کورابعہ کی پولیس دوست جیوتی کا فون آتا ہے جس میں وہ کسی مسلم لڑکے کا نام لیتی ہے اور بار بار یہ کہتی ہیں کہ ا نٹی آپ فون کال ریکارڈ تو نہیں کررہی ہیںنا…رابعہ کی والدہ کہتی ہیں کہ نہیں بیٹی بولو کیا مسئلہ ہے…پھر جیوتی بار بارشہری دفاع محکمہ کے مہرا سر کا ذکر کرتی ہے اور کہتی ہیں کہ رابعہ کے پاس مہرا سر نے چابیاں رکھنے کیلئے دی تھیں اور پھر جیوتی کسی فلیٹ کی بات کرتی ہے…جہاںکی وہ چابیاں تھیں جس کے اندر شاید لاکھوں کروڑوں روپئے رکھے گئے تھے… ہوسکتاہے کہ رابعہ کوئی ایسا راز جانتی ہو جس میں بڑے بڑے سیاست داں سمیت اعلی عہدیداران بھی شامل ہوسکتے ہیں…اور وہ راز سچی محنت اور لگن سے کام کرنے والی رابعہ کے ذریعے باہر آجانے کا ڈر تھااسی لیے شاید پولیس افسران کا رویہ اتنا غیرذمہ دارانہ تھا۔اوراگرکیس کی صحیح طور پر جانچ ہوتی ہے توحقائق کی پرتیںکھلتی جائیں گی۔
ملک میں بڑھ رہے ہندو مسلم منافرت کے درمیان اس طرح کے واقعات کو نہ ہی گودی میڈیا دکھارہا ہے اور نہ ہی اس ملک کی اکثریت اس کے انصاف کامطالبہ کررہی ہے۔ جس طرح نربھیا کیس کو پورے ملک میں ایک تحریک کے طور پر اٹھایاگیا تھا۔ کیا رابعہ سیفی کے اتنے خطرناک قتل اوردردناک واقعہ کو بھی گودی میڈیا میں کوئی جگہ ملے گی ؟جبکہ نربھیا سے خطرناک رابعہ سیفی کا سانحہ پیش آیا ہے لیکن قصور صرف اتنا ہے کہ دونوں کے مذاہب میں فرق ہے …افسوس کہ فرقہ پرور طاقتیں نفرتوں کے بیج بونے میں مکمل کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔
اس موقع پر ملک کے سابق نائب وزیراعظم جناب لال کرشن اڈوانی جی جنہیںملکی سیاست میں پوری طرح فراموش کردیاگیاہے یادآرہے ہیں کہ اِس طرح کیایک واقعہ پر اُنہوں نے صرف جنسی درندگی کرنے والوںکو سزائے موت دینے کی وکالت کی تھی توپھر اِس دردناک اور انتہائی درجہ کی زیادتی کے بعد جس میںجنسی درندگی ،جسمانی اذیت اور پھر اُس کی زندگی کاخاتمہ شامل ہے۔ اِس میں مجرموں کو صرف سزائے موت ہی نہیںبلکہ کسی چوراہے پر سزائے موت دینی چاہیے اوراُن کے جرائم کو چھپانے یا کم کرکے دکھانے والے بھی برابر کے مجرم قرار دیے جائیں اوران کے خلا ف بھی ایسی کارروائی کی جائے کہ جس سے آئندہ کوئی اِس طرح کی حرکت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے اور اس سزا کو یاد کرکے جرم کرنے سے پہلے ہی تھرتھرائے۔