پیگاسس اسکینڈل : پر اسرار حقائق تک رسائی کیسے؟
پروفیسرعتیق احمدفاروقی
کانگریس کے سینئر لیڈر اور سیاسی اقتصادیات کے ماہر پروین چکرورتی نے ایک ذرائع کے مطابق انکشاف کیاکہ تقریباً ایک سال قبل ایک سینئر صحافی نے بذریعے فون بتایاکہ ایک دن اُنہیں ہندوستان کے ایک بہت بڑے صنعتکار نے بظاہر اُن کے اوراُن کے کاروبارکے خلاف تنقیدی رپورٹنگ کے معاملے پر مذاکرہ کیلئے بلایا۔ دراصل وہ صنعتکار حکمراں جماعت کا قریبی تھا اورملاقات کے دوران اُس صنعتکار نے اُس صحافی سے دھمکی آمیز انداز میں کچھ صحافیوں کے نجی مالی لین دین کی پیچیدہ تفصیلات بتائیں۔ اُس صحافی نے پروین چکرورتی سے کہا کہ یہ سوچ کر اُسے تکلیف کا احساس ہوا کہ اُس صنعتکار کو صحافیوں کے نجی معاملات کی بھی اطلاع ہے لیکن چونکہ اُس صحافی کا ریکارڈ صاف وشفاف تھا اوراُس نے کوئی جرم نہیں کیاتھا اِس لیے وہ خاموشی سے بناکسی کشیدگی کے پُرامن انداز میں میٹنگ چھوڑ کر چلاگیا۔
ہمیں بین الاقوامی سطح کے 16میڈیا تنظیموں اورہندوستان کے ’دَوائر‘چینل کا شکر گزار ہوناچاہیے کہ اُن لوگوں نے ریکارڈ توڑ جانچ کاکام کرکے پتہ لگالیاکہ ہندوستان کے بہت سے لوگوں کا فون نمبر اسرائیل کے جاسوسی کرنے والے سافٹویئر پیگاسس کی کڑی نگرانی کے امکانی اہداف کی فہرست میں شامل ہیں۔ اُس صحافی کانام نہ صرف مبینہ فہرست میں شامل تھا جن کے فون کے ہیک کرلیے جانے کے امکان ہیں بلکہ فورنسک ٹسٹ سے یہ واضح ہوگیاکہ اُس کا فون بھی پیگاسس کی جاسوسی کے نشانہ پر تھا ۔
اب قابل غور بات یہ ہے کہ یہ دونوں واقعات صحافیوں کے نجی معاملات کی اطلاع صنعتکاروں کو ہونا اورپیگاسس سافٹویئر کی جاسوسی کی فہرست میں مبینہ صحافی کے فون نمبر کا پایاجانا،ایک دوسرے سے متعلق ہیںیاکہ یہ صرف ایک اتفاق ہے؟ توقع کی جاتی ہے کہ یہ دونوں واقعات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ اِسی تعلق سے ایک دوسرا سوال بھی اٹھتاہے کہ اِس صنعتکار تک اس صحافی کے فون سے یہ اطلاع کیسے پہنچی اوراِس کے علاوہ اورکون لوگ ہیں جنہیں یہ اطلاع تھی یا ہے ؟دوسرے الفاظ میں سب سے اہم سوال کہ اسرائیل کی نجی کمپنی این -ایس -او سے پیگاسس سافٹویئر ہندوستانی شہریوں کی جاسوسی کرنے کیلئے کون لایا اورایک دیگر سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ لوگوں کے فون کی تفصیل پیگاسس سے آخری وصول کنندہ تک کس کس راستے ہوکر پہنچتی ہے ؟۔
مبینہ صحافی کی جو مثال دی گئی ہے اُس کے تحت یہ واضح ہے کہ پیگاسس نے میسج،ای-میل، فون کال، تصاویر، ویڈیو، کیمرہ، پتہ اوردیگر اطلاعات صحافی کے فون سے بھیجی ہوگی۔ لیکن کیسے یہ صحیح اورسٹیک اعدادوشمار جو صحافی کے فون سے بھیجاگیاتھا ایک خصوصی مالی لین دین کی بامعنی اطلاع کی شکل میں تبدیل ہوگیااورصنعتکار کے پاس اُسے بھیج دیاگیا۔پیگاسس سافٹویئر صرف اعداد وشمار تو بھیج سکتاہے ،اُس کا تجزیہ نہیں کرسکتا۔
یہ بات تو اب بالکل ثابت ہوچکی ہے کہ ہندوستان میں کم ازکم تین سو مصدقہ لوگ ایسے ہیں جن کے فون نمبر امکانی سخت نگرانی کے نشانوں کی فہرست میںشامل ہیں۔ اِن لوگوں کاانتخاب بے خیالی میں نہیں کیاگیاہے بلکہ انہیں سوچ سمجھ کر خصوصی موقعوں پراُنہیں لیاگیا ہے تاکہ کچھ خاص مقاصدپورے کیے جاسکیں جیسا کہ سوشل میڈیا کے ’دَوائر‘چینل کے ذریعے تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔ایسی بھی رپورٹ ملی ہے کہ ہروہ آدمی جو پیگاسس کے نشانے پر ہے یا جن کے فون نمبر پیگاسس کی فہرست میں ہیں اُس کواُس زمرے میں لانے کیلئے خریدارکوکم سے کم بیس لاکھ روپئے خرچ کرنا پڑا ہوگا۔خریدار نے ہر شخص کو پیگاسس کے دائرے میں لانے کیلئے اتنی بڑی رقم صرف اس لیے خرچ کی تاکہ اُن کے فون کال سنیں جاسکیں،اُن کی حرکات پر نظر رکھی جاسکے، اُن کے میسج پڑھے جاسکیں اوراُس فردکی زندگی کے ہر عنصر پر نگاہ رکھی جاسکے لیکن یہ پیگاسس یا کسی دوسری مشین سے یہ کام نہیں ہوسکتاہے ۔ اِس کام کو کرنے کیلئے ایک انسان کی ضرورت پڑتی ہے جو دوسرے سرے پر پیگاسس کی جاسوسی کے نشانے پر کھڑے فردکی بات سن لے ، اُسے دیکھ لے اورپڑھ لے ۔ صرف ایک انسان ہی ان ساری اطلاعات کو سمجھ سکتاہے جوپیگاسس متاثرہ فون سے بھیجتاہے ۔ پیگاسس یہ اطلاع متاثرہ فون سے پورے سال بناکسی وقفہ کے 24گھنٹے دیتاہے ۔ اِن تمام اعداد وشمار کو یکجاکرنے کیلئے ، قابل فہم بنانے کیلئے اورتجزیہ کرنے کیلئے دوتین اراکین پر مشتمل ٹیم کی ضرورت پڑتی ہے اورجو جاسوسی کے شکار انسان سے متعلق اطلاعات کو باریکی سے دیکھ سکے ۔ ممکنہ بڑے پیمانے پر لوگوں کے فون پر ہوئے حملے کے مدنظرآخر میں پیچھے کے سرے پر کچھ ہزار افراد کی مزید ضرورت پڑے گی جو پیگاسس کے ذریعے بھیجے ہوئے اعدادوشمار کو خریدارکیلئے فائدے مند اور بامعنی اطلاع میں تبدیل کرسکے ۔یقینا خریدار پیگاسس پر صرف ڈیٹاجمع کرنے کیلئے ،جس کا تجزیہ نہ ہوسکے، اِتنی بڑی رقم خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگا۔
لہٰذا اگرہم یہ مان لیتے ہیں کہ پیگاسس کا ہندوستانی خریدار اتنا بیوقوف نہیں ہوگا کہ وہ بناکسی ایسی ٹیم کی تشکیل کیے ہوئے جو بنیادی خفیہ دستاویز کو قابل فہم بنانے میں ماہر ہو، صرف بڑی تعداد میں اعدادو شمار یکجاکرنے کیلئے ایک بڑی رقم لگادے گاتوبھی بہت سے دوسرے سوالات پیداہوں گے۔اوَّل،کیاہندوستان میں اتنی بڑی تربیت یافتہ ٹیم کہیں بیٹھی ہوئی ہے جوہندوستانی شہریوں کو کنٹرول کرے ؟دوم،اُس ٹیم کی تشکیل کس نے کی ہے اوراحکام کے چلنے کی چین کیاہے؟کیا اس میکینزم کے چلانے کاکام کوئی سرکاری ایجنسی کررہی ہے یا کسی پرائیویٹ کمپنی کولگایاگیاہے ؟ اورچہارم،اِس عظیم خفیہ کارروائی کی مالی مدد کون کررہاہے ؟
پیگاسس سافٹویئرایک اسرائیلی کمپنی سے خریدنا دراصل اِس خطرے کی ایک ابتدائی علامت ہے جس کا بیشتر حصہ مخفی ہے ۔ یہ جاسوسی کرنے کا سافٹویئراسی حدتک فائدہ مند ہے جس حدتک اُس کے اعدادوشما ر کو فائدہ مند اطلاع کی شکل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ یہ کام کسی مشین کے ذریعے خودبخودنہیں ہوتا ۔مصنوعی خفیہ معلومات کی ٹیکنالوجی چاہے جتنی جدید ہو اس میں افراد کی ایک بڑی ٹیم ، جو خفیہ معلومات کی کارروائی کرنے میں ماہر ہو ، پیگاسس کے ذریعے فراہم اعدادوشمار کواُس کے خریدار کیلئے مفید اوراہل بنانے کیلئے اُس کا تجزیہ اوروضاحت کرتے ہیں ، درکارہے۔
دراصل یہ بات بالکل صحیح ہے کہ مبینہ صنعتکار نے پیگاسس کے ذریعہ صحافی کی ذاتی اطلاعات حاصل کی ہے یا اگرکوئی کسی فرد کی ذاتی اطلاع جس کا فون نمبر پیگاسس کی فہرست میں درج ہے، حاصل کرلیتاہے تو یقینی طور پر ایک بہت اہل اورقابل ٹیم اِس کام میں لگی ہوئی ہے ۔یہ ٹیم ان فون کال سے اہم اورمفید اطلاع چھانٹنے میں ماہر ہوتی ہے اوربعدمیں اُسے یکے بعد دیگرے اپنے افسران کو بھیج دیتی ہے۔
سوال پیداہوتاہے کہ وہ ٹیم کہاں ہے ؟ اُس سے کون کام لے رہاہے اوریہ کیسے کام کررہی ہے ، اِن سوالوں کا جواب پیگاسس جاسوسی معاملے سے پردہ ہٹانے کیلئے معلوم کرنا ضروری ہے ۔ حکومت پارلیمان میں اِ ن سوالوں کاجواب دینے سے بچ سکتی ہے لیکن اگر میڈیا ،عدلیہ اورسول سو سائٹی مشترکہ طور پر اس مہم میں لگ جائیں توکامیابی مل سکتی ہے۔ بہت کچھ پراسرار باتوںکا انکشاف ہوسکتاہے ۔