ایرانی صدر رئیسی کا پہلی بار غزہ میں فلسطینی ریلی سے خطاب
غزہ،اپریل۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے غزہ میں فلسطینیوں کے حق میں ایک ایسی سالانہ ریلی سے پہلی مرتبہ آن لائن خطاب کیا، جس میں حماس کے سینکڑوں حامی شریک ہوئے۔ ابراہیم رئیسی سے قبل آج تک کسی ایرانی صدر نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق فلسطینیوں کی حمایت میں اس سالانہ ریلی سے ایرانی صدر کا خطاب ایک ایسا واقعہ ہے، جس کی پہلے کبھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ یہی خطاب اس امر کی طرف واضح اشارہ بھی ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے لیے ایران کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔حماس کو کئی بین الاقوامی اداروں اور ممالک نے باقاعدہ طور پر ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے اور یہی عسکریت پسند فلسطینی تنظیم گزشتہ کئی برسوں سے غزہ پٹی کے اسی فلسطینی علاقے پر حکمران بھی ہے، جہاں جمعہ چودہ اپریل کے روز ایرانی صدر رئیسی نے پہلی بار ایک ریلی سے ورچوئل خطاب کیا۔
ایرانی صدر نے کیا کہا؟ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے جس فلسطینی نواز ریلی سے خطاب کیا، اس میں عسکریت پسند تنظیم حماس کے سینکڑوں حامی بھی شریک ہوئے اور حماس سے چھوٹی ایک اور عسکریت پسند فلسطینی تنظیم جہاد اسلامی کے بہت سے کارکن بھی۔ ایرانی صدر کے خطاب کے وقت یہ تمام شرکاء ایک فٹ بال میدان میں جمع تھے۔صدر رئیسی نے اپنے خطاب میں فلسطینیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ ایرانی صدر نے کہا، ”فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لیے آگے بڑھنا آج فلسطینی فائٹرز کے ہاتھ میں ہے۔‘‘اہم بات یہ ہے کہ یہ الفاظ کہتے ہوئے صدر رئیسی نے فلسطینی خود مختار انتظامیہ کہلانے والے اور مغربی کنارے پر حمکران اس سیاسی دھڑے کو تقریباً مسترد کر دیا، جو فلسطینیوں کی داخلی سیاست میں حماس کا حریف سیاسی دھڑا ہے۔فلسطینی خود مختار انتظامیہ صدر محمود عباس کی قیادت میں طویل عرصے سے فلسطینیوں کی اپنی ایک علیحدہ، آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کے لیے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ہی کوششیں کرتی رہی ہے۔
حماس کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوشش:ایرانی صدر نے غزہ میں جس ریلی سے خطاب کیا، اس کا اہتمام یوم القدس کے موقع پر کیا گیا تھا۔ یہ دن ہر سال رمضان کے اسلامی مہینے کے آخری جمعے کو منایا جاتا ہے اور اس کا مقصد فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہوتا ہے۔کل یوم القدس کے موقع پر مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کے بہت سے شہروں میں ہزارہا شہریوں نے فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں نکالیں اور مظاہرے کیے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ابراہیم رئیسی کا غزہ میں ریلی سے خطاب دراصل ایران کی ان کوششوں کا حصہ ہے، جن کے تحت تہران حماس کے ساتھ اپنے تعلقات میں پیدا شدہ کھچاؤ کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اس کھچاؤکا پس منظر یہ ہے کہ ایران طویل عرصے تک حماس کا سرپرسٹ رہا ہے مگر ایرانی خانہ جنگی کے باعث دونوں کے مابین اختلافات بھی پیدا ہو گئے تھے۔عسکریت پسند تنظیم حماس اگرچہ سنی فلسطینیوں کی تنظیم ہے مگر اس کے عسکریت پسند دھڑے کے ایران کے ساتھ طویل عرصے سے قریبی روابط ہیں۔ شیعہ اکثریتی آبادی والا ایران حماس کو مالی وسائل بھی مہیا کرتا رہا ہے اور دونوں کے مابین قربت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں ہی اسرائیل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ایران نے کبھی بھی کھل کر یہ نہیں کہا کہ تہران حماس کی کس طرح اور کتنی مدد کرتا ہے۔ لیکن ایران کی طرف سے ملنے والی مدد پر حماس کئی بار تہران کا شکریہ ادا کر چکی ہے۔