ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کا اہم فیصلہ
عصمت دری کا شکارمتاثرہ کے پیچھے ہٹنے پرواپس ہوگا معاوضہ،وصولی کا حکم
لکھنو: اپریل۔ایک اہم فیصلے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے کہا کہ جنسی جرائم سے بچوں کی عصمت دری اور تحفظ (پاکسو) ایکٹ کے معاملات میں متاثرہ کو ملنے والے معاوضے کی رقم وصول کی جانی چاہیے۔ جسٹس برجراج سنگھ کی سنگل بنچ نے ایسے معاملات میں سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت تین ماہ میں مکرنے والی متاثرین سے معاوضہ وصول کرے۔عدالت نے جیتن لودھ عرف جتیندر کی درخواست ضمانت پر یہ حکم دیا۔ یہ معاملہ اناؤ کے گنگا گھاٹ تھانے سے متعلق ہے، جس میں متاثرہ کے گھر میں گھس کر عصمت دری اور پوکسو ایکٹ کے الزامات شامل ہیں۔ اس میں نچلی عدالت میں جرح کے دوران متاثرہ نے ایک اہم گواہ کے طور پر استغاثہ کیس کی حمایت نہیں کی۔ تفتیش کے دوران بھی وہ عدالت میں دیے گئے اپنے تحریری بیان سے مکر گئی۔ مقتولہ کا بھائی مدعی مقدمہ میں بطور گواہ بھی اپنے بیان سے مکر گیا۔ ایسی صورت حال میں جیل میں موجود ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کی استدعا کی گئی۔ دوسری جانب سرکاری وکیل راجیش کمار سنگھ نے ان گواہوں کی بحث کے دوران پہلے دیے گئے بیانات (جس میں استغاثہ کی حمایت کی گئی تھی) کا حوالہ دیتے ہوئے ضمانت کی مخالفت کی۔ عدالت نے ملزم کی درخواست ضمانت منظور کر لی۔اس کے بعد، سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عصمت دری اور POCSO کے معاملات میں، ریاستی حکومت متاثرہ اور اس کے خاندان کو مالی مدد فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عصمت دری کے واقعات میں متاثرین کی طرف سے انکار کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر متاثرہ یا اس کے اہل خانہ کو کوئی معاوضہ ملا ہے تو اسے وصول کیا جانا چاہیے۔ سرکاری وکیل نے ایسے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کا غلط استعمال ہے۔ اس معاملے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اگر متاثرہ شخص مکمل طور پر بیان سے مکر جاتا ہے اور استغاثہ کے مقدمے کی حمایت نہیں کرتا ہے تو یہ مناسب ہے کہ متاثرہ کو ملنے والے معاوضے کی رقم وصول کی جائے۔عدالت نے کہا کہ اس طرح سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا، کیونکہ قوانین کے مکمل غلط استعمال کا امکان ہے۔ ایسی صورت حال میں متاثرہ یا اس کے اہل خانہ کو جو معاوضہ دیا گیا ہے وہ حکام کو وصول کرنا چاہیے جنہوں نے دیا ہے۔ عدالت نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ یہ کارروائی تین ماہ میں مکمل کرے۔ اس کے ساتھ عدالت کے سینئر رجسٹرار کو حکم نامے کی کاپی چیف سیکرٹری کو بھجوانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ عدالت نے معاملے کو اگست کے دوسرے ہفتے میں درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پبلک پراسیکیوٹر اگلی سماعت پر اپنی پیش رفت رپورٹ پیش کرے گا۔